حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن صالح ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة يؤتون اجورهم مرتين: رجل كانت له امة، فادبها، فاحسن تاديبها، وعلمها، فاحسن تعليمها، ثم اعتقها، فتزوجها، ومملوك اعطى حق ربه عز وجل، وحق مواليه، ورجل آمن بكتابه، وبمحمد صلى الله عليه وسلم" ، قال: قال لي الشعبي: خذها بغير شيء، ولو سرت فيها إلى كرمان، لكان ذلك يسيرا.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أُجُورَهُمْ مَرَّتَيْنِ: رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا، وَمَمْلُوكٌ أَعْطَى حَقَّ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ آمَنَ بِكِتَابِهِ، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: خُذْهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ، وَلَوْ سِرْتَ فِيهَا إِلَى كَرْمَانَ، لَكَانَ ذَلِكَ يَسِيرًا.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر ملتا ہے وہ آدمی جس کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ دلائے بہترین ادب سکھائے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو اپنی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو، اسے بھی دہرا اجرملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ دو آدمی کسی جانور کا جھگڑا لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں میں سے کسی کے پاس بھی گواہ نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان دونوں کے درمیان نصف نصف مشترک قرار دے دیا۔
حكم دارالسلام: هو حديث معلول مع الاختلاف فى إسناده على قتاده
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عثمان بن غياث ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل تدري"، او: " هل ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ تَدْرِي"، أَوْ: " هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، انهم كانوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فرفعوا اصواتهم بالدعاء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم لا تدعون اصم، ولا غائبا، إنكم تدعون قريبا مجيبا يسمع دعاءكم، ويستجيب" . ثم قال: " يا عبد الله بن قيس او: يا ابا موسى: الا ادلك على كنز من كنوز الجنة: لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالدُّعَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ قَرِيبًا مُجِيبًا يَسْمَعُ دُعَاءَكُمْ، وَيَسْتَجِيبُ" . ثُمَّ قَالَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ أَوْ: يَا أَبَا مُوسَى: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا عبد الملك يعني ابن ابي سليمان العزرمي ، عن ابي علي ، رجل من بني كاهل، قال: خطبنا ابو موسى الاشعري ، فقال: يا ايها الناس، اتقوا هذا الشرك، فإنه اخفى من دبيب النمل، فقام إليه عبد الله بن حزن، وقيس بن المضارب، فقالا: والله لتخرجن مما قلت، او: لناتين عمر، ماذون لنا، او غير ماذون، قال: بل اخرج مما قلت: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فقال:" ايها الناس، اتقوا هذا الشرك، فإنه اخفى من دبيب النمل"، فقال له من شاء الله ان يقول: وكيف نتقيه، وهو اخفى من دبيب النمل يا رسول الله؟ قال:" قولوا: اللهم إنا نعوذ بك من ان نشرك بك شيئا نعلمه، ونستغفرك لما لا نعلم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ الْعَزْرَمِيَّ ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ ، رَجُلٍ مِنْ بَنِي كَاهِلٍ، قَالَ: خَطَبَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ، فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَزْنٍ، وَقَيْسُ بْنُ المُضَارِبِ، فَقَالَا: وَاللَّهِ لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، أَوْ: لَنَأْتِيَنَّ عُمَرَ، مَأْذُونٌ لَنَا، أَوْ غَيْرُ مَأْذُونٍ، قَالَ: بَلْ أَخْرُجُ مِمَّا قُلْتُ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا هَذَا الشِّرْكَ، فَإِنَّهُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ"، فَقَالَ لَهُ مَنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: وَكَيْفَ نَتَّقِيهِ، وَهُوَ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قُولُوا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا نَعْلَمُهُ، وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُ" .
ابوعلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا لوگو! اس شرک سے بچو کیونکہ اس کی آہٹ چیونٹی کی آہٹ سے بھی ہلکی ہوتی ہے یہ سن کر عبداللہ بن حزن اور قیس بن مضارب کھڑے ہو کر کہنے لگے اللہ کی قسم! یا تو آپ اپنی بات کا حوالہ دیں گے یا پھر ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں گے خواہ ہمیں اس کی اجازت ملے یا نہیں انہوں نے کہا کہ میں تمہیں اس کا حوالہ دیتا ہوں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو! اس شرک سے بچو کیونکہ اس کی آہٹ چیونٹی کی آہٹ سے بھی ہلکی ہوتی ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کی آہٹ چیونٹی کی آہٹ سے بھی ہلکی ہوتی ہے تو پھر ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یوں کہتے رہا کرو اے اللہ! ہم اس بات سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں کہ کسی چیز کو جان بوجھ کر آپ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں اور اس چیز سے معافی مانگتے ہیں جسے ہم جانتے نہیں۔
حدثنا وكيع ، عن حرملة بن قيس ، عن محمد بن ابي ايوب ، عن ابي موسى ، قال: امانان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، رفع احدهما، وبقي الآخر: وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون سورة الانفال آية 33 .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَمَانَانِ كَانَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُفِعَ أَحَدُهُمَا، وَبَقِيَ الْآخَرُ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ سورة الأنفال آية 33 .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو طرح کی امان تھی جن میں سے ایک اٹھ چکی ہے اور دوسری باقی ہے، (١) اللہ تعالیٰ انہیں آپ کی موجودگی میں عذاب نہیں دے گا (٢) اللہ انہیں اس وقت تک عذاب نہیں دے گا جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن أبى أيوب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عمن سمع حطان بن عبد الله الرقاشي ، قال: قال ابو موسى : قلت لصاحب لي: تعال، فلنجعل يومنا هذا لله عز وجل، فلكانما شهدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ومنهم من يقول: تعال، فلنجعل يومنا هذا لله عز وجل" ، فما زال يرددها، حتى تمنيت ان اسيخ في الارض.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَمَّنْ سَمِعَ حِطَّانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيَّ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : قُلْتُ لِصَاحِبٍ لِي: تَعَالَ، فَلْنَجْعَلْ يَوْمَنَا هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَكَأَنَّمَا شَهِدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: تَعَالَ، فَلْنَجْعَلْ يَوْمَنَا هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" ، فَمَا زَالَ يُرَدِّدُهَا، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَسِيخَ فِي الْأَرْضِ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آؤ آج کا دن اللہ کے لئے وقف کردیتے ہیں مجھے ایسا لگا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ آؤ! آج کا دن اللہ کے لئے وقف کردیتے ہیں اور انہوں نے یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی ہے کہ میں تمنا کرنے لگا کہ میں زمین میں اترجاؤں۔
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، عن قتادة ، حدثنا الحسن ، ان ابا موسى الاشعري كان له اخ يقال له: ابو رهم، وكان يتسرع في الفتنة، وكان الاشعري يكره الفتنة، فقال له: لولا ما ابلغت إلي، ما حدثتك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من مسلمين التقيا بسيفيهما، فقتل احدهما الآخر، إلا دخلا جميعا النار" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ كَانَ لَهُ أَخٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو رُهْمٍ، وَكَانَ يَتَسَرَّعُ فِي الْفِتْنَةِ، وَكَانَ الْأَشْعَرِيُّ يَكْرَهُ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ لَهُ: لَوْلَا مَا أَبْلَغْتَ إِلَيَّ، مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِسَيْفَيْهِمَا، فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، إِلَّا دَخَلَا جَمِيعًا النَّارَ" .
خواجہ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا ایک بھائی تھا جو بڑھ چڑھ کر فتنے کے کاموں میں حصہ لیتا تھا وہ اسے منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتاوہ اس سے فرماتے اگر میں یہ سمجھتا کہ تمہیں سی نصیحت بھی کافی ہوسکتی ہے جو میری رائے میں اس سے کم ہوتی (تب بھی میں تمہیں نصیحت کرتا) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہوتی ہیں (دیت کے حوالے سے) یعنی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مسروق بن أوس، وقد اختلف فيه على غالب التمار