حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال سمعت سماك بن حرب ، قال: سمعت عباد بن حبيش يحدث، عن عدي بن حاتم ، قال: جاءت خيل رسول الله صلى الله عليه وسلم او قال: رسل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا بعقرب، فاخذوا عمتي وناسا، قال: فلما اتوا بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فصفوا له، قالت: يا رسول الله، ناى الوافد، وانقطع الولد، وانا عجوز كبيرة، ما بي من خدمة، فمن علي، من الله عليك، قال:" من وافدك؟"، قالت: عدي بن حاتم، قال:" الذي فر من الله ورسوله؟!"، قالت: فمن علي، قالت: فلما رجع ورجل إلى جنبه نرى انه علي ؛ قال:" سليه حملانا"، قال: فسالته، فامر لها، قالت: فاتاني، فقالت: لقد فعلت فعلة ما كان ابوك يفعلها، قالت: ائته راغبا، او راهبا، فقد اتاه فلان، فاصاب منه، واتاه فلان، فاصاب منه، قال: فاتيته، فإذا عنده امراة وصبيان او صبي فذكر قربهم من النبي صلى الله عليه وسلم، فعرفت انه ليس ملك كسرى، ولا قيصر، فقال له:" يا عدي بن حاتم! ما افرك ان يقال: لا إله إلا الله؟ فهل من إله إلا الله؟! ما افرك ان يقال: الله اكبر؟ فهل شيء هو اكبر من الله عز وجل؟!" قال: فاسلمت، فرايت وجهه استبشر، وقال: " إن المغضوب عليهم اليهود، والضالين النصاري"، ثم سالوه، فحمد الله تعالى، واثنى عليه، ثم قال:" اما بعد، فلكم ايها الناس ان ترضخوا من الفضل، ارتضخ امرؤ بصاع، ببعض صاع، بقبضة، ببعض قبضة"، قال شعبة: واكثر علمي انه قال:" بتمرة، بشق تمرة"،" وإن احدكم لاقي الله عز وجل، فقائل ما اقول: الم اجعلك سميعا بصيرا؟! الم اجعل لك مالا وولدا؟! فماذا قدمت؟ فينظر من بين يديه، ومن خلفه، وعن يمينه، وعن شماله، فلا يجد شيئا، فما يتقي النار إلا بوجهه، فاتقوا النار ولو بشق تمرة، فإن لم تجدوه، فبكلمة لينة، إني لا اخشى عليكم الفاقة، لينصرنكم الله تعالى، وليعطينكم او ليفتحن لكم حتى تسير الظعينة بين الحيرة، ويثرب، إن اكثر ما تخاف السرق على ظعينتها" ، قال محمد بن جعفر: حدثناه شعبة ما لا احصيه، وقراته عليه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ سَمِعْتُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: جَاءَتْ خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ: رُسُلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِعَقْرَبٍ، فَأَخَذُوا عَمَّتِي وَنَاسًا، قَالَ: فَلَمَّا أَتَوْا بِهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصَفُّوا لَهُ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَأَى الْوَافِدُ، وَانْقَطَعَ الْوَلَدُ، وَأَنَا عَجُوزٌ كَبِيرَةٌ، مَا بِي مِنْ خِدْمَةٍ، فَمُنَّ عَلَيَّ، مَنَّ اللَّهُ عَلَيْكَ، قَالَ:" مَنْ وَافِدُكِ؟"، قَالَتْ: عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ:" الَّذِي فَرَّ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ؟!"، قَالَتْ: فَمَنَّ عَلَيَّ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ وَرَجُلٌ إِلَى جَنْبِهِ نَرَى أَنَّهُ عَلِيٌّ ؛ قَالَ:" سَلِيهِ حُمْلَانًا"، قَالَ: فَسَأَلَتْهُ، فَأَمَرَ لَهَا، قَالَتْ: فَأَتَانِي، فَقَالَتْ: لَقَدْ فَعَلْتَ فَعْلَةً مَا كَانَ أَبُوكَ يَفْعَلُهَا، قَالَتْ: ائْتِهِ رَاغِبًا، أَوْ رَاهِبًا، فَقَدْ أَتَاهُ فُلَانٌ، فَأَصَابَ مِنْهُ، وَأَتَاهُ فُلَانٌ، فَأَصَابَ مِنْهُ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَإِذَا عِنْدَهُ امْرَأَةٌ وَصِبْيَانٌ أَوْ صَبِيٌّ فَذَكَرَ قُرْبَهُمْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَيْسَ مُلْكُ كِسْرَى، وَلَا قَيْصَرَ، فَقَالَ لَهُ:" يَا عَدِيُّ بْنَ حَاتِمٍ! مَا أَفَرَّكَ أَنْ يُقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ فَهَلْ مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللَّهُ؟! مَا أَفَرَّكَ أَنْ يُقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ؟ فَهَلْ شَيْءٌ هُوَ أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟!" قَالَ: فَأَسْلَمْتُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ اسْتَبْشَرَ، وَقَالَ: " إِنَّ الْمَغْضُوبَ عَلَيْهِمْ الْيَهُودُ، وَالضَّالِّينَ النَّصَارَي"، ثُمَّ سَأَلُوهُ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَلَكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ أَنْ تَرْضَخُوا مِنَ الْفَضْلِ، ارْتَضَخَ امْرُؤٌ بِصَاعٍ، بِبَعْضِ صَاعٍ، بِقَبْضَةٍ، بِبَعْضِ قَبْضَةٍ"، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَكْثَرُ عِلْمِي أَنَّهُ قَالَ:" بِتَمْرَةٍ، بِشِقِّ تَمْرَةٍ"،" وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَاقِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَائِلٌ مَا أَقُولُ: أَلَمْ أَجْعَلْكَ سَمِيعًا بَصِيرًا؟! أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ مَالًا وَوَلَدًا؟! فَمَاذَا قَدَّمْتَ؟ فَيَنْظُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، وَعَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، فَلَا يَجِدُ شَيْئًا، فَمَا يَتَّقِي النَّارَ إِلَّا بِوَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوهُ، فَبِكَلِمَةٍ لَيِّنَةٍ، إِنِّي لَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ الْفَاقَةَ، لَيَنْصُرَنَّكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، وَلَيُعْطِيَنَّكُمْ أَوْ لَيَفْتَحَنَّ لَكُمْ حَتَّى تَسِيرَ الظَّعِينَةُ بَيْنَ الْحِيرَةِ، ويَثْرِبَ، إِنْ أَكْثَرَ مَا تَخَافُ السَّرَقَ عَلَى ظَعِينَتِهَا" ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: حَدَّثَنَاهُ شُعْبَةُ مَا لَا أُحْصِيهِ، وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ.
حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ میں " عقرب " نامی مقام پر تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار ہم تک آپہنچے انہوں نے میری پھوپھی اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کرلیا جب وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو انہیں ایک صف میں کھڑا کردیا گیا میری پھوپھی نے کہا یا رسول اللہ! رونے والے دورچلے گئے اور بچے بچھڑگئے میں بہت بوڑھی ہوچکی ہوں کسی قسم کی خدمت بھی نہیں کرسکتی اس لئے مجھ پر مہربانی فرمائیے اللہ آپ پر مہربانی کرے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں کون لایا ہے؟ انہوں نے بتایاعدی بن حاتم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگا پھر رہا ہے اس نے کہ پھر بھی آپ مجھ پر مہربانی فرمائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس جانے لگے تو ان کے پہلو میں ایک آدمی تھا جو غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ان سے سواری کا جانورمانگ لو، میں نے ان سے درخو اس کی تو انہوں نے میرے لئے اس کا حکم دے دیا۔ تھوڑی دیربعدعدی ان کے پاس گئے تو وہ کہنے لگیں کہ تم نے ایساکام کیا جو تمہارے باپ نے نہیں کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شوق سے جاؤیاخوف سے (لیکن جاؤضرور) کیونکہ فلاں آدمی ان کے پاس گیا تھا تو اسے بھی کچھ مل گیا اور فلاں آدمی بھی گیا تھا اور اسے بھی کچھ مل گیا چناچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں ایک عورت اور کچھ بچے بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے قریب ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھ گیا کہ یہ قیصروکسریٰ جیسے بادشاہ نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے عدی! لا الہ الا اللہ کہنے سے تمہیں کون سی چیزراہ فرار پر مجبور کرتی ہے؟ کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟ تمہیں " اللہ اکبر " کہنے سے کون سی چیزراہ فرار پر مجبور کرتی ہے؟ کیا اللہ سے بڑی بھی کوئی چیز ہے؟ اس پر میں نے اسلام قبول کرلیا اور میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے کھل اٹھا اور فرمایا جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ یہودی ہیں اور جو گمراہ ہوئے وہ عیسائی ہیں۔ پھر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمدوثناء سے فارغ ہو کر " امابعد " کہہ کر فرمایا لوگو! زائد چیزیں اکٹھی کرو چناچہ کسی نے ایک صاع کسی نے نصف صاع کسی نے ایک مٹھی اور کسی نے آدھی مٹھی دی، پھر فرمایا تم لوگ اللہ سے ملنے والے ہو، اس وقت ایک کہنے والا وہی کہے گا جو میں کہہ رہاہوں کہ کیا میں نے تمہیں سننے اور دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تم نے آگے کیا بھیجا؟ وہ اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھے گا لیکن کچھ نہیں ملے گا اور اپنی ذات کے علاوہ کسی چیز کے ذریعے آگ سے نہیں بچ سکے گا اس لئے تم جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے ہو اگر وہ بھی نہ ملے تو نرمی سے بات کرکے بچو مجھے تم پر فقروفاقہ کا اندیشہ نہیں ہے اللہ تمہاری مددضرور کرے گا اور تمہیں ضرورمال و دولت دے گا یا اتنی فتوحات ہوں گی کہ ایک عورت حیرہ اور مدینہ کے درمیان اکیلی سفر کرلیا کرے گی حالانکہ عورت کے پاس سے چوری ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وفي هذا الإسناد عباد بن حبيش مجهول
حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے اور جو ان " دونوں " کی نافرمانی کرتا ہے وہ گمراہ ہوجاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بہت برے خطیب ہو، یہاں سے آٹھ جاؤ۔
حدثنا هشيم ، اخبرنا مجالد ، عن الشعبي ، عن عدي بن حاتم ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيد الكلب، فقال: " إذا ارسلت كلبك المعلم، فسميت عليه، فاخذ، فادركت ذكاته، فذكه، وإن قتل، فكل، فإن اكل منه، فلا تاكل" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ، فَقَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ، فَسَمَّيْتَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَ، فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ، فَذَكِّهِ، وَإِنْ قَتَلَ، فَكُلْ، فَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، فَلَا تَأْكُلْ" .
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتے کے ذریعے شکار کے متعلق دریافت کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑو اور اللہ کا نام لے لو تو اس نے تمہارے لئے جو شکار پکڑا ہو اور خود نہ کھایا ہو تو اسے کھالو اور اگر تم نے شکارکوزندہ پایا تو اسے ذبح کرلو اور اگر کتے نے اس میں سے کچھ کھالیاہو تو تم اسے نہ کھاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد
ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے لیکن میں اسے خود آپ سے سننا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا بہت اچھاجب مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کی خبرملی تو مجھے اس پر بڑی ناگواری ہوئی۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عدی سے مروی ہے کہ ایک میں نے بارگارہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میرے والد صاحب صلہ رحمی اور فلاں فلاں کام کرتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے باپ کا ایک مقصد (شہرت ') تھا جو اس نے پالیا
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضيعف لجهالة مري بن قطري، مؤمل ضعيف لكنه توبع
حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن الاعمش ، عن خيثمة ، عن ابن معقل ، عن عدي بن حاتم ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتقوا النار"، قال: فاشاح بوجهه حتى ظننا انه ينظر إليها، ثم قال:" اتقوا النار"، واشاح بوجهه قال: قال مرتين او ثلاثا: " اتقوا النار ولو بشق تمرة، فإن لم تجدوا، فبكلمة طيبة" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اتَّقُوا النَّارَ"، قَالَ: فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ:" اتَّقُوا النَّارَ"، وَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ قَالَ: قَالَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا: " اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا، فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ" .
حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہنم کی آگ سے بچو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفرت سے اس طرح منہ پھیرلیاگویا جہنم کو دیکھ رہے ہوں، دو تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر فرمایا جہنم کی آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے عوض ہی ہو اگر وہ بھی نہ مل سکے تو اچھی بات ہی کرلو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد أخطأ فيه شريك
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا جرير يعني ابن حازم ، عن عاصم الاحول ، عن عامر ، عن عدي بن حاتم ، قال: قلت: يا نبي الله، إنا اهل صيد، فقال: " إذا رمى احدكم بسهمه، فليذكر اسم الله تعالى، فإن قتل فلياكل، وإن وقع في ماء، فوجده ميتا، فلا ياكله، فإنه لا يدري لعل الماء قتله، فإن وجد سهمه في صيد بعد يوم او اثنين، ولم يجد فيه اثرا غير سهمه، فإن شاء فلياكله"، قال:" وإذا ارسل عليه كلبه، فليذكر اسم الله عز وجل، فإن ادركه قد قتله، فلياكل، وإن اكل منه، فلا ياكل، فإنه إنما امسك على نفسه، ولم يمسك عليه، وإن ارسل كلبه، فخالط كلابا لم يذكر اسم الله عليها، فلا ياكل، فإنه لا يدري ايها قتله" ..حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّا أَهْلُ صَيْدٍ، فَقَالَ: " إِذَا رَمَى أَحَدُكُمْ بِسَهْمِهِ، فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنْ قَتَلَ فَلْيَأْكُلْ، وَإِنْ وَقَعَ فِي مَاءٍ، فَوَجَدَهُ مَيْتًا، فَلَا يَأْكُلْهُ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ الْمَاءَ قَتَلَهُ، فَإِنْ وَجَدَ سَهْمَهُ فِي صَيْدٍ بَعْدَ يَوْمٍ أَوْ اثْنَيْنِ، وَلَمْ يَجِدْ فِيهِ أَثَرًا غَيْرَ سَهْمِهِ، فَإِنْ شَاءَ فَلْيَأْكُلْهُ"، قَالَ:" وَإِذَا أَرْسَلَ عَلَيْهِ كَلْبَهُ، فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ أَدْرَكَهُ قَدْ قَتَلَهُ، فَلْيَأْكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، فَلَا يَأْكُلْ، فَإِنَّهُ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَلَمْ يُمْسِكْ عَلَيْهِ، وَإِنْ أَرْسَلَ كَلْبَهُ، فَخَالَطَ كِلَابًا لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا، فَلَا يَأْكُلْ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيُّهَا قَتَلَهُ" ..
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے نبی! ہم شکاری لوگ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص شکار پر تیر چلائے تو اللہ کا نام لے لے، اگر اس تیر سے شکارمرجائے تو اسے کھالے اور پانی میں گر کر مرجائے تو نہ کھائے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ پانی کی وجہ سے مراہو اور اگر ایک دو دن کے بعد کسی شکار میں اپنے تیرنظر آئے اور اس پر کسی دوسرے کے تیر کانشان نہ ہو سو اگر دل چاہے تو اسے کھالے اور اگر شکاری کتا چھوڑے تو اللہ کا نام لے لے پھر اگر وہ شکارمرا ہوا ملے تو اسے کھالے اور اگر کتے نے اس میں سے کچھ کھالیا ہو تو نہ کھائے کیونکہ اس نے اسے اپنے لئے شکار کیا ہے اپنے مالک کے لئے نہیں اور اگر اس نے اپنا کتا چھوڑا اور اس کے ساتھ دوسرے کتے ملے گئے جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا تو اسے بھی نہ کھائے کیونکہ اسے معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کون سے کتے نے اسے قتل کیا ہے۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عدی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے لیکن میں اسے خود آپ سے سننا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا بہت اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کیا تم " رکوسیہ " میں سے نہیں ہو جو اپنی قوم کا چوتھائی مال غنیمت کھاجاتے ہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حالانکہ یہ تمہارے دین میں حلال نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے آگے جو بات بھی فرمائی میں اس کے آگے جھک گیا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا زكريا بن ابي زائدة ، وعاصم الاحول ، عن الشعبي ، عن عدي بن حاتم ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيد المعراض، فقال: " ما اصاب بحده فكل، وما اصاب بعرضه فهو وقيذ"، وسالته عن صيد الكلب، فقال:" إذا ارسلت كلبك، وذكرت اسم الله عليه، فامسك عليك، فكل، وإن وجدت معه كلبا غير كلبك، وقد قتله، وخشيت ان يكون قد اخذ معه، فلا تاكل، فإنك ذكرت اسم الله على كلبك، ولم تذكره على غيره" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، وَعَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ، فَقَالَ: " مَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ"، وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ، فَقَالَ:" إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ، فَكُلْ، وَإِنْ وَجَدْتَ مَعَهُ كَلْبًا غَيْرَ كَلْبِكَ، وَقَدْ قَتَلَهُ، وَخَشِيتَ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَخَذَ مَعَهُ، فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّكَ ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تَذْكُرْهُ عَلَى غَيْرِهِ" .
حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شکار کے متعلق پوچھا جو تیر کی چوڑائی سے مرجائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شکار کو تم نے تیر کی دھار سے ماراہو تو اسے کھاسکتے ہو لیکن جسے تیر کی چوڑائی سے ماراہو وہ موقوذہ (چوٹ سے مرنے والے جانور) کے حکم میں ہے پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتے کے ذریعے شکار کے متعلق دریافت کیا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے کتے کو شکار پر چھوڑو اور اللہ کا نام لے لو تو اسے کھاسکتے ہو) اس نے تمہارے لئے جو شکار پکڑا ہو اور خود نہ کھایا ہو تو اسے کھالو کیونکہ اس کا پکڑناہی اسے ذبح کرنا ہے اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ اور تمہیں اندیشہ ہو کہ اس دوسرے کتے نے شکار کو پکڑا اور قتل کیا ہوگا تو تم اسے مت کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا تھا دوسرے کے کتے پر نہیں لیا تھا۔