حدثنا هشام بن سعيد ، حدثنا محمد بن مهاجر يعني اخا عمرو بن مهاجر، قال: حدثني عقيل بن شبيب ، عن ابي وهب الجشمي، وكانت له صحبة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تسموا باسماء الانبياء، واحب الاسماء إلى الله عز وجل عبد الله وعبد الرحمن، واصدقها حارث وهمام، واقبحها حرب ومرة، وارتبطوا الخيل، وامسحوا بنواصيها واعجازها او قال: واكفالها وقلدوها ولا تقلدوها الاوتار، وعليكم بكل كميت اغر محجل او اشقر اغر محجل، او ادهم اغر محجل" ..حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ يَعْنِي أَخَا عَمْرِو بْنِ مُهَاجِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ، وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ، وَارْتَبِطُوا الْخَيْلَ، وَامْسَحُوا بِنَوَاصِيهَا وَأَعْجَازِهَا أَوْ قَالَ: وَأَكْفَالِهَا وَقَلِّدُوهَا وَلَا تُقَلِّدُوهَا الْأَوْتَارَ، وَعَلَيْكُمْ بِكُلِّ كُمَيْتٍ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ أَوْ أَشْقَرَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ، أَوْ أَدْهَمَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ" ..
حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انبیاء کرام (علیہم السلام) کے نام پر نام رکھا کرو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں اور سب سے بدترین نام حرب اور مرہ ہیں اور گھوڑے باندھا کرو ان کی پیشانیوں اور دموں کے قریب ہاتھ پھیرا کرو ان کے گلے میں قلادہ باندھا کرو لیکن تانت کا نہیں اور ان گھوڑوں کو اپنے اوپر لازم کرلو جو چتکبرے اور سفید روشن پیشانی اور چمکتے ہوئے اعضاء والے ہوں یا جو سرخ وسفید یا کالے سیاہ ہوں اور پیشانی روشن چمکدار ہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عقيل بن شبيب، وقد اختلف فيه على محمد بن مهاجر
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا محمد بن المهاجر ، حدثنا عقيل بن شبيب ، عن ابي وهب الكلاعي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر معناه. قال محمد: ولا ادري بالكميت بدا او بالادهم، قال: وسالوه لم فضل الاشقر؟ قال: لان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية، فكان اول من جاء بالفتح صاحب الاشقر.حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجَرِ ، حَدَّثَنَا عَقِيلُ بْنُ شَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْكَلَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَدْرِي بِالْكُمَيْتِ بَدَأَ أَوْ بِالْأَدْهَمِ، قَالَ: وَسَأَلُوهُ لِمَ فَضَّلَ الْأَشْقَرَ؟ قَالَ: لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ جَاءَ بِالْفَتْحِ صَاحِبُ الْأَشْقَرِ.
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عقيل بن شبيب ، وقد اختلف فيه على محمد بن مهاجر
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: سئل عن رجل يسلم عليه وهو غير متوضئ، فقال: حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن الحضين ابي ساسان ، عن المهاجر بن قنفذ ، انه سلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يتوضا، فلم يرد عليه حتى توضا فرد عليه وقال: " إنه لم يمنعني ان ارد عليك إلا اني كرهت ان اذكر الله إلا على طهارة" . قال: فكان الحسن من اجل هذا الحديث يكره ان يقرا او يذكر الله عز وجل حتى يتطهر.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ غَيْرُ مُتَوَضِّئٍ، فَقَالَ: حدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الْحُضَيْنِ أَبِي سَاسَانَ ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ ، أَنَّهُ سَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ حَتَّى تَوَضَّأَ فَرَدَّ عَلَيْهِ وَقَال: " إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ إِلَّا أَنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ إِلَّا عَلَى طَهَارَةٍ" . قَالَ: فَكَانَ الْحَسَنُ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ يَكْرَهُ أَنْ يَقْرَأَ أَوْ يَذْكُرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى يَتَطَهَّرَ.
حضرت مہاجر قنفذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وضو فرما رہے تھے اس کے لئے جواب نہیں دیا جب وضو کرچکے تو ان کے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں جواب دینے سے کوئی چیز مانع نہ تھی لیکن میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ بےوضو ہونے کی حالت میں اللہ کا نام لوں۔ راوی کہتے ہیں کہ اسی حدیث کی بناء پر خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ وضو کئے بغیر قرآن پڑھنا یا اللہ کا ذکر کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن جعفر سمع من سعيد بن أبى عروبة بعدالاختلاط، لكنه توبع
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن ، عن الركين بن الربيع ، عن ابيه ، عن عمه فلان بن عميلة ، عن خريم بن فاتك الاسدي ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الناس اربعة، والاعمال ستة، فالناس موسع عليه في الدنيا والآخرة، وموسع له في الدنيا مقتور عليه في الآخرة، ومقتور عليه في الدنيا موسع عليه في الآخرة، وشقي في الدنيا والآخرة، والاعمال موجبتان، ومثل بمثل، وعشرة اضعاف، وسبع مئة ضعف، فالموجبتان من مات مسلما مؤمنا لا يشرك بالله شيئا فوجبت له الجنة، ومن مات كافرا وجبت له النار، ومن هم بحسنة فلم يعملها، فعلم الله انه قد اشعرها قلبه، وحرص عليها، كتبت له حسنة، ومن هم بسيئة لم تكتب عليه، ومن عملها كتبت واحدة ولم تضاعف عليه، ومن عمل حسنة كانت له بعشر امثالها، ومن انفق نفقة في سبيل الله كانت له بسبع مئة ضعف" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمِّهِ فُلَانِ بْنِ عَمِيلَةَ ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الْأَسَدِيِّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " النَّاسُ أَرْبَعَةٌ، وَالْأَعْمَالُ سِتَّةٌ، فَالنَّاسُ مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمُوَسَّعٌ لَهُ فِي الدُّنْيَا مَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ، وَمَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ، وَشَقِيٌّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَالْأَعْمَالُ مُوجِبَتَانِ، وَمِثْلٌ بِمِثْلٍ، وَعَشْرَةُ أَضْعَافٍ، وَسَبْعُ مِئَةِ ضِعْفٍ، فَالْمُوجِبَتَانِ مَنْ مَاتَ مُسْلِمًا مُؤْمِنًا لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ مَاتَ كَافِرًا وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، فَعَلِمَ اللَّهُ أَنَّهُ قَدْ أَشْعَرَهَا قَلْبَهُ، وَحَرَصَ عَلَيْهَا، كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْهِ، وَمَنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ وَاحِدَةً وَلَمْ تُضَاعَفْ عَلَيْهِ، وَمَنْ عَمِلَ حَسَنَةً كَانَتْ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَمَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ بِسَبْعِ مِئَةِ ضِعْفٍ" .
حضرت خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اعمال چھ طرح کے ہیں اور لوگ چار طرح کے ہیں دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں ایک چیز برابر برابر ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا اور ایک نیکی کا ثواب سات سو گنا ہے واجب کرنے والی دو چیزیں تو یہ ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا مرے وہ جہنم میں داخل ہوگا اور برابر سرابر یہ ہے کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اس کے دل میں اس کا احساس پیدا ہو اور اللہ کے علم میں ہو تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جو شخص برائی کا عمل سر انجام دے اس کے لئے ایک برائی لکھی جاتی ہے جو شخص ایک نیکی کرے اس کے لئے وہ دس گنا لکھی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں خرچ کرے تو ایک نیکی سات سو گنا تک شمار ہوتی ہے۔
حضرت خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایک نیکی کرے اس کے لئے وہ دس گنا لکھی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں خرچ کرے تو ایک نیکی سات سو گنا تک شمار ہوتی ہے۔
حضرت خریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم میں دو چیزیں نہ ہوتی تو تم تم ہوتے عرض کیا کہ مجھے ایک ہی بات کافی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنا تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکاتے ہو اور بال خوب لمبے کرتے ہو عرض کیا اللہ کی قسم! اب یقینا ایسا نہیں کروں گا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه، شمر بن عطية لم يدرك خريم بن فاتك. سماع أبى بكر من ابي اسحاق ليس بذلك القوي، لكنه توبع
حضرت خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایک نیکی کرے اس کے لئے وہ دس گنا لکھی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں خرچ کرے تو ایک نیکی سات سو گنا تک شمار ہوتی ہے۔
حدثنا ابو النضر ، حدثنا المسعودي ، عن الركين بن الربيع ، عن ابيه ، عن خريم بن فاتك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الاعمال ستة، والناس اربعة، فموجبتان، ومثل بمثل، والحسنة بعشر امثالها، والحسنة بسبع مئة، فاما الموجبتان: من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار، واما مثل بمثل: فمن هم بحسنة حتى يشعرها قلبه، ويعلم الله عز وجل ذلك منه كتبت له حسنة، ومن عمل سيئة كتبت عليه سيئة، ومن عمل حسنة كتبت له بعشر امثالها، ومن انفق نفقة في سبيل الله، فحسنة بسبع مئة، والناس اربعة: موسع عليه في الدنيا مقتور عليه في الآخرة، وموسع عليه في الآخرة مقتور عليه في الدنيا، وموسع عليه في الدنيا والآخرة، ومقتور عليه في الدنيا والآخرة" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَعْمَالُ سِتَّةٌ، وَالنَّاسُ أَرْبَعَةٌ، فَمُوجِبَتَانِ، وَمِثْلٌ بِمِثْلٍ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالْحَسَنَةُ بِسَبْعِ مِئَةٍ، فَأَمَّا الْمُوجِبَتَانِ: مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ، وَأَمَّا مِثْلٌ بِمِثْلٍ: فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ حَتَّى يُشْعِرَهَا قَلْبَهُ، وَيَعْلَمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَلِكَ مِنْهُ كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً كُتِبَتْ عَلَيْهِ سَيِّئَةً، وَمَنْ عَمِلَ حَسَنَةً كُتِبَتْ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَمَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَحَسَنَةٌ بِسَبْعِ مِئَةٍ، وَالنَّاسُ أَرْبَعَةٌ: مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا مَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ، وَمُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ مَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا، وَمُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" .
حضرت خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اعمال چھ طرح کے ہیں اور لوگ چار طرح کے ہیں دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں ایک چیز برابر برابر ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا اور ایک نیکی کا ثواب سات سو گنا ہے واجب کرنے والی دو چیزیں تو یہ ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا مرے وہ جہنم میں داخل ہوگا اور برابر سرابر یہ ہے کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اس کے دل میں اس کا احساس پیدا ہو اور اللہ کے علم میں ہو تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جو شخص برائی کا عمل سرانجام دے اس کے لئے ایک برائی لکھی جاتی ہے جو شخص ایک نیکی کرے اس کے لئے وہ دس گنا لکھی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں خرچ کرے تو ایک نیکی سات سو گنا تک شمار ہوتی ہے۔ باقی رہے لوگ تو ان میں سے بعض پر دنیا میں کشادگی اور آخرت میں تنگی ہوتی ہے بعض پر دنیا میں تنگی اور آخرت میں کشادگی بعض پر دنیا و آخرت دونوں میں تنگی اور بعض پر دنیا و آخرت دونوں میں کشادگی ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على الركين بن الربيع
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کے میں نے حضرت ابوسعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے کوئی جنازہ گذرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر، وأما قوله فى هذا الحديث: «أشهد على أبى سعيد بن زيد» فقد وقع فيه الخلاف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مؤذن سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ تیز بارش کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کردیا کہ اپنے اپنے مقام پر نماز پڑھ لو۔