حضرت بیاضی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس تشریف لائے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور تلاوت قرآن کے دوران ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نمازی آدمی اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اس لئے اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس عظیم ہستی سے مناجات کررہا ہے اور تم ایک دوسرے پر قرآن پڑھتے ہوئے آوازیں بلند نہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو حازم التمار مختلف فى صحبته، والظاهر أنه لا صحبة له
حضرت ابواروی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھتا تھا پھر غروب آفتاب سے پہلے اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتا تھا۔
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا هشيم ، قال: اخبرنا داود بن ابي هند ، قال: حدثني ابو حرب بن ابي الاسود ، عن فضالة الليثي، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاسلمت وعلمني حتى علمني الصلوات الخمس لمواقيتهن، قال: فقلت له: إن هذه لساعات اشغل فيها، فمرني بجوامع، فقال لي: " إن شغلت، فلا تشغل عن العصرين" قلت: وما العصران؟ قال:" صلاة الغداة وصلاة العصر" .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَرْبِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ فَضَالَةَ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِي حَتَّى عَلَّمَنِي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ لِمَوَاقِيتِهِنَّ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَاتٌ أُشْغَلُ فِيهَا، فَمُرْنِي بِجَوَامِعَ، فَقَالَ لِي: " إِنْ شُغِلْتَ، فَلَا تُشْغَلْ عَنِ الْعَصْرَيْنِ" قُلْتُ: وَمَا الْعَصْرَانِ؟ قَالَ:" صَلَاةُ الْغَدَاةِ وَصَلَاةُ الْعَصْرِ" .
حضرت فضالہ لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کرلیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ باتیں سکھائیں اور پنج وقتہ نماز کو ان کے وقت مقررہ پر ادا کرنے کی تعلیم دی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ان اوقات میں تو میں مصروف ہوتاہوں لہٰذا مجھے کوئی جامع باتیں بتادیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مصروف ہوتے ہو تو پھر بھی کم ازکم " عصرین " تو نہ چھوڑنا میں پوچھا کہ " عصرین " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبح کی نماز اور عصر کی نماز۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف، وهذا إسناد اختلف فيه على داود بن أبى هند
حدثنا هشيم ، قال: علي بن زيد اخبرنا، عن زرارة بن اوفى ، عن مالك بن الحارث ؛ رجل منهم انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من ضم يتيما بين ابوين مسلمين إلى طعامه وشرابه حتى يستغني عنه، وجبت له الجنة البتة، ومن اعتق امرا مسلما كان فكاكه من النار، يجزي بكل عضو منه عضوا منه من النار" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ أَخْبَرَنَا، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ ؛ رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ ضَمَّ يَتِيمًا بَيْنَ أَبَوَيْنِ مُسْلِمَيْنِ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ عَنْهُ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ الْبَتَّةَ، وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فَكَاكَهُ مِنَ النَّارِ، يُجْزِي بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ" .
حضرت مالک بن حارثرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمان ماں باپ کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے اور پینے میں اس وقت تک شامل رکھتا ہے جب تک وہ اس امداد سے مشتغنی نہیں ہوجاتا (خود کمانے لگ جاتا ہے) تو اس کے لئے یقینی طور پر جنت واجب ہوتی ہے جو شخص کسی مسلمان آدمی کو آزاد کرتا ہے وہ جہنم سے اس کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے اور آزاد ہونے والے کے ہر عضو کے بدلے میں اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على زرارة بن أوفي فى اسم صحابية ونسبه ونسبته
حضرت مالک بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمان ماں باپ کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے اور پینے میں اس وقت تک شامل رکھتا ہے جب تک وہ اس امداد سے مستغنی نہیں ہوجاتا (خودکمانے لگ جاتا ہے) تو اس کے لئے یقینی طور پر جنت واجب ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على زرارة بن أوفي فى اسم صحابية ونسبه ونسبته
حضرت ابی بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور پھر بھی جہنم میں چلا جائے تو وہ اللہ کی رحمت سے بہت دور جاپڑا۔
حدثني بهز ، قال: حدثنا شعبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن رجل من قومه يقال له: ابي بن مالك ، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من ادرك والديه او احدهما، فدخل النار، فابعده الله" .حَدَّثَنِي بَهْزٌ ، قَالَ: حدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ يُقَالُ لَهُ: أُبَيُّ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ" .
حضرت ابی بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور پھر بھی جہنم میں چلاجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے بہت دور جاپڑا۔
حدثنا بهز ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة . قال عفان في حديثه: اخبرنا علي بن زيد ، عن زرارة بن اوفى ، عن مالك بن عمرو القشيري ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من اعتق رقبة مسلمة، فهي فداؤه من النار"، قال عفان:" مكان كل عظم من عظام محرره بعظم من عظامه، ومن ادرك احد والديه، ثم لم يغفر له، فابعده الله، ومن ضم يتيما من بين ابوين مسلمين" قال عفان:" إلى طعامه وشرابه حتى يغنيه الله وجبت له الجنة" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ . قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ مَالِكِ بْنِ عَمْرٍو الْقُشَيْرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُسْلِمَةً، فَهِيَ فِدَاؤُهُ مِنَ النَّارِ"، قَالَ عَفَّانُ:" مَكَانَ كُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِ مُحَرِّرِهِ بِعَظْمٍ مِنْ عِظَامِهِ، وَمَنْ أَدْرَكَ أَحَدَ وَالِدَيْهِ، ثُمَّ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ، وَمَنْ ضَمَّ يَتِيمًا مِنْ بَيْنِ أَبَوَيْنِ مُسْلِمَيْنِ" قَالَ عَفَّانُ:" إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ حَتَّى يُغْنِيَهُ اللَّهُ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ" .
حضرت مالک بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان آدمی کو آزاد کرتا ہے وہ جہنم سے اس کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے اور آزاد ہونے والے کے ہر عضو کے بدلے میں اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے جو شخص اپنے والدین میں سے کسی ایک کو پائے پھر بھی اس کی بخشش نہ ہو تو وہ بہت دور جا پڑا جو شخص مسلمان ماں باپ کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے اور پینے میں اس وقت تک شامل رکھتا ہے جب تک وہ اس امداد سے مشتغنی نہیں ہوجاتا (خود کمانے لگ جاتا ہے) تو اس کے لئے یقینی طور پر جنت واجب ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «من أدرك أحد والديه .........» فهو صحيح، وهذا اسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت خشخاش عنبری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں (میں اس کی گواہی دیتا ہوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے کسی جرم کا ذمہ دار تمہیں یا تمہارے کسی جرم کا ذمہ دار اسے نہیں بنایا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد سمعه هشيم من يونس مرارا، فمرة يرويه منقطعا بين يونس وحصين، ومرة يبهمه كما قال: أخبرني مخبر، ومرة يوصله فيصرح به، وهو ثقة، فتنتفي علة انقطاعه