مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 18902
Save to word اعراب
حدثنا مروان بن معاوية ، اخبرنا سفيان بن زياد ، عن فاتك بن فضالة ، عن ايمن بن خريم ، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا، فقال:" يا ايها الناس، عدلت شهادة الزور إشراكا بالله عز وجل" ثلاثا، ثم قال: اجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور .حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ فَاتِكِ بْنِ فَضَالَةَ ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَدَلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" ثَلَاَثًا، ثُمَّ قَالَ: اجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الَأََوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ .
حضرت خریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے اپنے جگہ کھڑے ہوگئے اور تین مرتبہ فرمایا جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قراردیا گیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچو۔ "

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فاتك بن فضالة مجهول، وأيمن بن خريم مختلف فى صحبته
حدیث نمبر: 18903
Save to word اعراب
حدثنا يعلى ، حدثنا مسعر ، عن زياد بن علاقة ، عن عمه قطبة بن مالك ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الفجر: والنخل باسقات سورة ق آية 10 .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، عَنْ عَمِّهِ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ: وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ سورة ق آية 10 .
حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر میں والنخل باسقات " کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 457
حدیث نمبر: 18904
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن عطاء يعني ابن السائب ، عن رجل من بكر بن وائل، عن خاله ، قال: قلت: يا رسول الله، اعشر قومي؟ فقال: " إنما العشور على اليهود والنصارى، وليس على الإسلام عشور" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ يَعْنِي ابْنَ السَّائِبِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ خَالِهِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُعْشِرُ قَوْمِي؟ فَقَالَ: " إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَلَيْسَ عَلَى الَإِسْلاَمِ عُشُورٌ" .
بکر بن وائل کے ایک صاحب اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنی قوم سے ٹیکس وصول کرتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹیکس تو یہود و نصاری پر ہوتا ہے مسلمانوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطرابه
حدیث نمبر: 18905
Save to word اعراب
حدثنا وكيع ، وابو معاوية ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن يعقوب ابن بحير ، عن ضرار بن الازور ، قال: بعثني اهلي بلقوح وقال ابو معاوية بلقحة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاتيته بها، فامرني ان احلبها، ثم قال: " دع داعي اللبن" . قال ابو معاوية: لا تجهدنها.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَا: حدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ يَعْقُوبَ ابْنِ بَحِيرٍ ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ الْأَزْوَرِ ، قَالَ: بَعَثَنِي أَهْلِي بِلَقُوحٍ وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ بِلَقْحٍة إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَأَمَرَنِي أَنْ أَحْلُبَهَا، ثُمَّ قَالَ: " دَعْ دَاعِيَ اللَّبَنِ" . قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: لَا تُجْهِدَنَّهَا.
حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مجھے میرے گھر والوں نے ایک دودھ دینے والی اونٹنی دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاٍس بھیجا، میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا دودھ دوہنے کا حکم دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے تھنوں میں اتنا دودھ رہنے دو کہ دوبارہ حاصل کرسکو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال يعقوب بن بحير
حدیث نمبر: 18906
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وقال ابن شهاب الزهري ، حدثني عبد الملك بن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن ابيه ، عن عبد الله بن زمعة بن الاسود بن المطلب بن اسد ، قال: لما استعز برسول الله صلى الله عليه وسلم وانا عنده في نفر من المسلمين، قال: دعا بلال للصلاة، فقال: " مروا من يصلي بالناس" قال: فخرجت، فإذا عمر في الناس، وكان ابو بكر غائبا، فقال: قم يا عمر، فصل بالناس. قال: فقام، فلما كبر عمر سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم صوته، وكان عمر رجلا مجهرا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فاين ابو بكر؟ يابى الله ذلك والمسلمون، يابى الله ذلك والمسلمون"، قال: فبعث إلى ابي بكر، فجاء بعد ان صلى عمر تلك الصلاة فصلى بالناس، قال: وقال عبد الله بن زمعة قال لي عمر ويحك، ماذا صنعت بي يا ابن زمعة، والله ما ظننت حين امرتني إلا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرك بذلك، ولولا ذلك ما صليت بالناس، قال: قلت: والله ما امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكن حين لم ار ابا بكر رايتك احق من حضر بالصلاة .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدٍ ، قَالَ: لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: دَعَا بِلَالٌ لِلصَّلاَةِ، فَقَالَ: " مُرُوا مَنْ يُصَلِّي بِالنَّاسِ" قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَإِذَا عُمَرُ فِي النَّاسِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَقَالَ: قُمْ يَا عُمَرُ، فَصَلِّ بِالنَّاسِ. قَالَ: فَقَامَ، فَلَمَّا كَبَّرَ عُمَرُ سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ، وَكَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْهِرًا، قَالَ: فَقَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَيْنَ أَبُو بَكْرٍ؟ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ، يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ"، قَالَ: فَبَعَثَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَجَاءَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى عُمَرُ تِلْكَ الصَّلاَةَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ قَالَ لِي عُمَرُ وَيْحَكَ، مَاذَا صَنَعْتَ بِي يَا ابْنَ زَمْعَةَ، وَاللَّهِ مَا ظَنَنْتُ حِينَ أَمَرْتَنِي إِلَاَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَكَ بِذَلِكَ، وَلَوْلَا ذَلِكَ مَا صَلَّيْتُ بِالنَّاسِ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ حِينَ لَمْ أَرَ أَبَا بَكْرٍ رَأَيْتُكَ أَحَقَّ مَنْ حَضَرَ بِالصَّلاةِ .
حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ وہاں موجود تھا اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لئے اذان دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی سے کہہ دو کہ لوگوں کو نماز پڑھادے میں باہر نکالا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں موجود تھے اور حضرت ابوبکر صدیق موجود نہ تھے میں نے کہا کہ عمر! آگے بڑھ کر نماز پڑھائیے، چناچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے جب انہوں نے تکبیر کہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز سنی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز بلند تھی تو فرمایا کہ ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان اس سے انکار کرتے ہیں اللہ اور مسلمان اس سے انکار کرتے ہیں، پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر انہیں بلایا جب وہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ نماز پڑھاچکے تھے پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا ہائے افسوس! اے ابن زمعہ! یہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ بخدا! جب تم نے مجھے آگے بڑھنے کے لئے کہا تو میں یہی سمجھا کہ اس کا حکم تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اگر ایسا نہیں تھا تو میں لوگوں کو کبھی بھی نماز نہ پڑھاتا میں نے ان سے کہا کہ واللہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ مجھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دکھائی نہیں دئیے تھے تو میں نے حاضرین میں آپ سے بڑھ کر کسی کو امامت کا مستحق نہیں پایا۔

حكم دارالسلام: ابن إسحاق وإن صرح بالتحديث قد اختلف عليه فى إسناده ، ثم إن فى متنه ما يمنع القول بصحته
حدیث نمبر: 18907
Save to word اعراب
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا عبد الله بن جعفر ، حدثتنا ام بكر بنت المسور بن مخرمة ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن المسور : انه بعث إليه حسن بن حسن يخطب ابنته، فقال له: قل له: فليلقني في العتمة، قال: فلقيه، فحمد المسور الله، واثنى عليه، وقال: اما بعد، والله ما من نسب ولا سبب ولا صهر احب إلي من سببكم وصهركم، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " فاطمة مضغة مني يقبضني ما قبضها، ويبسطني ما بسطها، وإن الانساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي وسببي وصهري" وعندك ابنتها ولو زوجتك لقبضها ذلك، قال: فانطلق عاذرا له .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ بَكْرٍ بِنْتُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنِ الْمِسْوَرِ : أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ يَخْطُبُ ابْنَتَهُ، فَقَالَ لَهُ: قُلْ لَهُ: فَلْيَلْقَنِي فِي الْعَتَمَةِ، قَالَ: فَلَقِيَهُ، فَحَمِدَ الْمِسْوَرُ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، وَاللَّهِ مَا مِنْ نَسَبٍ ولَا سَبَبٍ وَلَا صِهْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ سَبَبِكُمْ وَصِهْرِكُمْ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فَاطِمَةُ مُضْغَةٌ مِنِّي يَقْبِضُنِي مَا قَبَضَهَا، وَيَبْسُطُنِي مَا بَسَطَهَا، وَإِنَّ الأْنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي وَسَبَبِي وَصِهْرِي" وَعِنْدَكَ ابْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُكَ لَقَبَضَهَا ذَلِكَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حسن بن حسن رحمہ اللہ نے ان کے پاس ان کی بیٹی سے اپنے لئے پیغام نکاح بھیجا انہوں نے قاصد سے کہا کہ حسن سے کہنا کہ وہ عشاء میں مجھ سے ملیں جب ملاقات ہوئی تو مسور رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور امابعد کہہ کر فرمایا اللہ کی قسم! تمہارے نسب اور سسرال سے زیادہ کوئی حسب نسب اور سسرال مجھے محبوب نہیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس چیز سے وہ تنگ ہوتی ہے میں بھی تنگ ہوتا ہوں اور جس چیز سے وہ خوش ہوتی ہے میں بھی خوش ہوتا ہوں اور قیامت کے دن میرے حسب نسب اور سسرال کے علاوہ سب نسب ناطے ختم ہوجائیں گے آپ کے نکاح میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی پہلے سے ہے اگر میں نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تنگ ہوں گے یہ سن کر حسن نے ان کی معذرت قبول کرلی اور واپس چلے گئے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله:وإن الأنساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي وسببي وصهري فهو حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، أم بكر بنت المسور مجهولة
حدیث نمبر: 18908
Save to word اعراب
حدثنا ابو عامر ، حدثنا عبد الله بن جعفر ، عن ام بكر ، عن المسور ، قال: مر بي يهودي وانا قائم خلف النبي صلى الله عليه وسلم، والنبي صلى الله عليه وسلم يتوضا، قال: فقال: ارفع او اكشف ثوبه عن ظهره، قال: فذهبت به ارفعه، قال: " فنضح النبي صلى الله عليه وسلم في وجهي من الماء" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أُمِّ بَكْرٍ ، عَنِ الْمِسْوَرِ ، قَالَ: مَرَّ بِي يَهُودِيٌّ وَأَنَا قَائِمٌ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ، قَالَ: فَقَالَ: ارْفَعْ أَوْ اكْشِفْ ثَوْبَهُ عَنْ ظَهْرِهِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ أَرْفَعُهُ، قَالَ: " فَنَضَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِي مِنَ الْمَاءِ" .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی میرے پاس سے گذرا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے اس نے کہا کہ ان کا کپڑا ان کی پشت پر سے ہٹادو میں ہٹانے کے لئے آگے بڑھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے منہ پر پانی کا چھینٹادے مارا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الجهالة حال أم بكر
حدیث نمبر: 18909
Save to word اعراب
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عروة ، عن مروان ، والمسور بن مخرمة يزيد احدهما على صاحبه:" خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية في بضع عشرة مئة من اصحابه، فلما كان بذي الحليفة، قلد الهدي، واشعر، واحرم منها، وبعث عينا له بين يديه، فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا..... .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ مَرْوَانَ ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ يَزِيدُ أحدهما على صاحبه:" خرج رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِئَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، قَلَّدَ الْهَدْيَ، وَأَشْعَرَ، وَأَحْرَمَ مِنْهَا، وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَسَأرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا..... .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ اور مروان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے اوپر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر نکلے ذوالحلیفہ پہنچ کر ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اس کا شعار کیا اور وہاں سے احرام باندھ لیا اور اپنے آگے ایک جاسوس بھیج کر خود بھی روانہ ہوگئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1694
حدیث نمبر: 18910
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا محمد بن إسحاق بن يسار ، عن الزهري محمد بن مسلم بن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن المسور بن مخرمة ، ومروان بن الحكم ، قالا: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية يريد زيارة البيت، لا يريد قتالا، وساق معه الهدي سبعين بدنة، وكان الناس سبع مئة رجل، فكانت كل بدنة عن عشرة، قال: وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان بعسفان لقيه بسر بن سفيان الكعبي، فقال: يا رسول الله، هذه قريش قد سمعت بمسيرك، فخرجت معها العوذ المطافيل، قد لبسوا جلود النمور، يعاهدون الله ان لا تدخلها عليهم عنوة ابدا، وهذا خالد بن الوليد في خيلهم قدموا إلى كراع الغميم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ويح قريش، لقد اكلتهم الحرب، ماذا عليهم لو خلوا بيني وبين سائر الناس، فإن اصابوني كان الذي ارادوا، وإن اظهرني الله عليهم، دخلوا في الإسلام وهم وافرون، وإن لم يفعلوا، قاتلوا وبهم قوة، فماذا تظن قريش، والله إني لا ازال اجاهدهم على الذي بعثني الله له حتى يظهره الله له او تنفرد هذه السالفة"، ثم امر الناس، فسلكوا ذات اليمين بين ظهري الحمض على طريق تخرجه على ثنية المرار والحديبية من اسفل مكة، قال: فسلك بالجيش تلك الطريق، فلما رات خيل قريش قترة الجيش قد خالفوا عن طريقهم، نكصوا راجعين إلى قريش، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا سلك ثنية المرار بركت ناقته، فقال الناس: خلات، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما خلات، وما هو لها بخلق، ولكن حبسها حابس الفيل عن مكة، والله لا تدعوني قريش اليوم إلى خطة يسالوني فيها صلة الرحم إلا اعطيتهم إياها"، ثم قال للناس:" انزلوا"، فقالوا: يا رسول الله، ما بالوادي من ماء ينزل عليه الناس، فاخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم سهما من كنانته، فاعطاه رجلا من اصحابه، فنزل في قليب من تلك القلب، فغرزه فيه، فجاش الماء بالرواء حتى ضرب الناس عنه بعطن، فلما اطمان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بديل بن ورقاء في رجال من خزاعة، فقال لهم كقوله لبسر بن سفيان، فرجعوا إلى قريش، فقالوا: يا معشر قريش، إنكم تعجلون على محمد، وإن محمدا لم يات لقتال، إنما جاء زائرا لهذا البيت، معظما لحقه، فاتهموهم، قال محمد يعني ابن إسحاق: قال الزهري: وكانت خزاعة في عيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم مسلمها ومشركها، لا يخفون على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا كان بمكة، فقالوا: وإن كان إنما جاء لذلك، فلا والله لا يدخلها ابدا علينا عنوة، ولا تتحدث بذلك العرب. ثم بعثوا إليه مكرز بن حفص بن الاخيف، احد بني عامر بن لؤي، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" هذا رجل غادر"، فلما انتهى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمه رسول الله صلى الله عليه وسلم بنحو مما كلم به اصحابه، ثم رجع إلى قريش، فاخبرهم بما قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فبعثوا إليه الحلس بن علقمة الكناني، وهو يومئذ سيد الاحابش، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" هذا من قوم يتالهون، فابعثوا الهدي في وجهه"، فبعثوا الهدي، فلما راى الهدي يسيل عليه من عرض الوادي في قلائده قد اكل اوباره من طول الحبس عن محله، رجع، ولم يصل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم إعظاما لما راى، فقال: يا معشر قريش، قد رايت ما لا يحل صده: الهدي في قلائده قد اكل اوتاره من طول الحبس عن محله، فقالوا: اجلس، فإنما انت اعرابي لا علم لك، فبعثوا إليه عروة بن مسعود الثقفي، فقال: يا معشر قريش، إني قد رايت ما يلقى منكم من تبعثون إلى محمد إذا جاءكم من التعنيف وسوء اللفظ، وقد عرفتم انكم والد واني ولد، وقد سمعت بالذي نابكم، فجمعت من اطاعني من قومي، ثم جئت حتى آسيتكم بنفسي، قالوا: صدقت، ما انت عندنا بمتهم، فخرج حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلس بين يديه، فقال: يا محمد، جمعت اوباش الناس، ثم جئت بهم لبيضتك لتفضها، إنها قريش قد خرجت معها العوذ المطافيل، قد لبسوا جلود النمور، يعاهدون الله ان لا تدخلها عليهم عنوة ابدا، وايم الله، لكاني بهؤلاء قد انكشفوا عنك غدا، قال وابو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد، فقال: امصص بظر اللات، انحن ننكشف عنه؟ قال: من هذا يا محمد؟ قال:" هذا ابن ابي قحافة"، قال: اما والله لولا يد كانت لك عندي، لكافاتك بها، ولكن هذه بها، ثم تناول لحية رسول الله صلى الله عليه وسلم والمغيرة بن شعبة واقف على راس رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحديد، قال: يقرع يده، ثم قال: امسك يدك عن لحية رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل والله لا تصل إليك، قال: ويحك، ما افظك واغلظك، قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من هذا يا محمد؟ قال:" هذا ابن اخيك المغيرة بن شعبة" قال: اغدر، هل غسلت سواتك إلا بالامس، قال: فكلمه رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل ما كلم به اصحابه، فاخبره انه لم يات يريد حربا، قال: فقام من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد راى ما يصنع به اصحابه ؛ لا يتوضا وضوءا إلا ابتدروه، ولا يبسق بساقا إلا ابتدروه، ولا يسقط من شعره شيء إلا اخذوه، فرجع إلى قريش، فقال: يا معشر قريش، إني جئت كسرى في ملكه، وجئت قيصر والنجاشي في ملكهما، والله ما رايت ملكا، قط مثل محمد في اصحابه، ولقد رايت قوما لا يسلمونه لشيء ابدا، فروا رايكم، قال: وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ذلك بعث خراش بن امية الخزاعي إلى مكة، وحمله على جمل له يقال له: الثعلب، فلما دخل مكة عقرت به قريش، وارادوا قتل خراش، فمنعهم الاحابش حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا عمر ليبعثه إلى مكة، فقال: يا رسول الله، إني اخاف قريشا على نفسي وليس بها من بني عدي احد يمنعني وقد عرفت قريش عداوتي إياها، وغلظتي عليها، ولكن ادلك على رجل هو اعز مني عثمان بن عفان، قال: فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبعثه إلى قريش يخبرهم انه لم يات لحرب، وانه جاء زائرا لهذا البيت، معظما لحرمته، فخرج عثمان حتى اتى مكة، ولقيه ابان بن سعيد بن العاص، فنزل عن دابته وحمله بين يديه، وردف خلفه، واجاره حتى بلغ رسالة رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلق عثمان حتى اتى ابا سفيان وعظماء قريش فبلغهم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ارسله به، فقالوا لعثمان: إن شئت ان تطوف بالبيت فطف به، فقال: ما كنت لافعل حتى يطوف به رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاحتبسته قريش عندها، فبلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمين ان عثمان قد قتل، قال محمد: فحدثني الزهري، ان قريشا بعثوا سهيل بن عمرو، احد بني عامر بن لؤي، فقالوا: ائت محمدا فصالحه، ولا يكون في صلحه إلا ان يرجع عنا عامه هذا، فوالله لا تتحدث العرب انه دخلها علينا عنوة ابدا. فاتاه سهيل بن عمرو، فلما رآه النبي صلى الله عليه وسلم قال:" قد اراد القوم الصلح حين بعثوا هذا الرجل"، فلما انتهى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تكلما، واطالا الكلام، وتراجعا حتى جرى بينهما الصلح، فلما التام الامر ولم يبق إلا الكتاب وثب عمر بن الخطاب، فاتى ابا بكر، فقال: يا ابا بكر، اوليس برسول الله صلى الله عليه وسلم؟ اولسنا بالمسلمين؟ اوليسوا بالمشركين؟ قال: بلى، قال: فعلام نعطي الذلة في ديننا، فقال ابو بكر: يا عمر، الزم غرزه حيث كان، فإني اشهد انه رسول الله، قال عمر: وانا اشهد. ثم اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اولسنا بالمسلمين؟ اوليسوا بالمشركين؟ قال:" بلى"، قال: فعلام نعطي الذلة في ديننا؟ فقال:" انا عبد الله ورسوله، لن اخالف امره، ولن يضيعني"، ثم قال عمر: ما زلت اصوم واتصدق واصلي واعتق من الذي صنعت مخافة كلامي الذي تكلمت به يومئذ حتى رجوت ان يكون خيرا، قال: ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكتب بسم الله الرحمن الرحيم"، فقال سهيل بن عمرو: لا اعرف هذا، ولكن اكتب باسمك اللهم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكتب باسمك اللهم، هذا ما صالح عليه محمد رسول الله سهيل بن عمرو"، فقال سهيل بن عمرو: لو شهدت انك رسول الله لم اقاتلك، ولكن اكتب هذا ما اصطلح عليه محمد بن عبد الله وسهيل بن عمرو على وضع الحرب عشر سنين، يامن فيها الناس، ويكف بعضهم عن بعض، على انه من اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اصحابه بغير إذن وليه رده عليهم، ومن اتى قريشا ممن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يردوه عليه، وإن بيننا عيبة مكفوفة، وإنه لا إسلال ولا إغلال وكان في شرطهم حين كتبوا الكتاب انه من احب ان يدخل في عقد محمد وعهده دخل فيه، ومن احب ان يدخل في عقد قريش وعهدهم دخل فيه، فتواثبت خزاعة، فقالوا: نحن مع عقد رسول الله صلى الله عليه وسلم وعهده، وتواثبت بنو بكر، فقالوا: نحن في عقد قريش وعهدهم، وانك ترجع عنا عامنا هذا، فلا تدخل علينا مكة، وانه إذا كان عام قابل، خرجنا عنك، فتدخلها باصحابك، واقمت فيهم ثلاثا معك سلاح الراكب لا تدخلها بغير السيوف في القرب، فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يكتب الكتاب إذ جاءه ابو جندل بن سهيل بن عمرو في الحديد قد انفلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وقد كان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خرجوا وهم لا يشكون في الفتح لرؤيا رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما راوا ما راوا من الصلح والرجوع، وما تحمل رسول الله صلى الله عليه وسلم على نفسه، دخل الناس من ذلك امر عظيم حتى كادوا ان يهلكوا، فلما راى سهيل ابا جندل، قام إليه، فضرب وجهه، ثم قال: يا محمد، قد لجت القضية بيني وبينك قبل ان ياتيك هذا، قال:" صدقت"، فقام إليه، فاخذ بتلبيبه، قال: وصرخ ابو جندل باعلى صوته: يا معاشر المسلمين، اتردونني إلى اهل الشرك، فيفتنوني في ديني، قال: فزاد الناس شرا إلى ما بهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا جندل، اصبر واحتسب، فإن الله عز وجل جاعل لك ولمن معك من المستضعفين فرجا ومخرجا، إنا قد عقدنا بيننا وبين القوم صلحا، فاعطيناهم على ذلك، واعطونا عليه عهدا، وإنا لن نغدر بهم"، قال: فوثب إليه عمر بن الخطاب مع ابي جندل، فجعل يمشي إلى جنبه وهو يقول: اصبر ابا جندل، فإنما هم المشركون، وإنما دم احدهم دم كلب، قال: ويدني قائم السيف منه، قال: يقول: رجوت ان ياخذ السيف، فيضرب به اباه. قال: فضن الرجل بابيه، ونفذت القضية، فلما فرغا من الكتاب، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في الحرم وهو مضطرب في الحل، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا ايها الناس، انحروا واحلقوا"، قال: فما قام احد، قال: ثم عاد بمثلها، فما قام رجل، حتى عاد بمثلها، فما قام رجل، فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل على ام سلمة، فقال:" يا ام سلمة ما شان الناس"، قالت: يا رسول الله، قد دخلهم ما قد رايت، فلا تكلمن منهم إنسانا، واعمد إلى هديك حيث كان فانحره واحلق، فلو قد فعلت ذلك فعل الناس ذلك، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكلم احدا حتى اتى هديه، فنحره، ثم جلس، فحلق، فقام الناس ينحرون ويحلقون، قال: حتى إذا كان بين مكة والمدينة في وسط الطريق، فنزلت سورة الفتح .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ ، قَالَا: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ يُرِيدُ زِيَارَةَ الْبَيْتِ، لَا يُرِيدُ قِتَالًا، وَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ سَبْعِينَ بَدَنَةً، وَكَانَ النَّاسُ سَبْعَ مِئَةِ رَجُلٍ، فَكَانَتْ كُلُّ بَدَنَةٍ عَنْ عَشَرَةٍ، قَالَ: وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِعُسْفَانَ لَقِيَهُ بِسْرُ بْنُ سُفْيَانَ الْكَعْبِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ سَمِعَتْ بِمَسِيرِكَ، فَخَرَجَتْ مَعَهَا الْعُوذُ الْمَطَافِيلُ، قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، يُعَاهِدُونَ اللَّهَ أَنْ لَا تَدْخُلَهَا عَلَيْهِمْ عَنْوَةً أَبَدًا، وَهَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي خَيْلِهِمْ قَدِمُوا إِلَى كُرَاعِ الْغَمِيمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا وَيْحَ قُرَيْشٍ، لَقَدْ أَكَلَتْهُمْ الْحَرْبُ، مَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ خَلَّوْا بَيْنِي وَبَيْنَ سَائِرِ النَّاسِ، فَإِنْ أَصَابُونِي كَانَ الَّذِي أَرَادُوا، وَإِنْ أَظْهَرَنِي اللَّهُ عَلَيْهِمْ، دَخَلُوا فِي الْإِسْلاَمِ وَهُمْ وَافِرُونَ، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا، قَاتَلُوا وَبِهِمْ قُوَّةٌ، فَمَاذَا تَظُنُّ قُرَيْشٌ، وَاللَّهِ إِنِّي لَا أزالُ أُجَاهِدُهُمْ عَلَى الَّذِي بَعَثَنِي اللَّهُ لَهُ حَتَّى يُظْهِرَهُ اللَّهُ لَهُ أَوْ تَنْفَرِدَ هَذِهِ السَّالِفَةُ"، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ، فَسَلَكُوا ذَاتَ الْيَمِينِ بَيْنَ ظَهْرَيْ الْحَمْضِ عَلَى طَرِيقٍ تُخْرِجُهُ عَلَى ثَنِيَّةِ الْمِرَارِ وَالْحُدَيْبِيَةِ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ، قَالَ: فَسَلَكَ بِالْجَيْشِ تِلْكَ الطَّرِيقَ، فَلَمَّا رَأَتْ خَيْلُ قُرَيْشٍ قَتَرَةَ الْجَيْشِ قَدْ خَالَفُوا عَنْ طَرِيقِهِمْ، نَكَصُوا رَاجِعِينَ إِلَى قُرَيْشٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا سَلَكَ ثَنِيَّةَ الْمِرَارِ بَرَكَتْ نَاقَتُهُ، فَقَالَ النَّاسُ: خَلَأَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا خَلَأَتْ، وَمَا هُوَ لَهَا بِخُلُقٍ، وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ عَنْ مَكَّةَ، وَاللَّهِ لَا تَدْعُونِي قُرَيْشٌ الْيَوْمَ إِلَى خُطَّةٍ يَسْأَلُونِي فِيهَا صِلَةَ الرَّحِمِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا"، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" انْزِلُوا"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا بِالْوَادِي مِنْ مَاءٍ يَنْزِلُ عَلَيْهِ النَّاسُ، فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، فَأَعْطَاهُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ، فَنَزَلَ فِي قَلِيبٍ مِنْ تِلْكَ الْقُلُبِ، فَغَرَزَهُ فِيهِ، فَجَاشَ الْمَاءُ بِالرَّوَاءِ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ عَنْهُ بِعَطَنٍ، فَلَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ فِي رِجَالٍ مِنْ خُزَاعَةَ، فَقَالَ لَهُمْ كَقَوْلِهِ لِبُسَْرِ بْنِ سُفْيَانَ، فَرَجَعُوا إِلَى قُرَيْشٍ، فَقَالُوا: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنَّكُمْ تَعْجَلُونَ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا لَمْ يَأْتِ لِقِتَالٍ، إِنَّمَا جَاءَ زَائِرًا لِهَذَا الْبَيْتِ، مُعَظِّمًا لَحَقِّهِ، فَاتَّهَمُوهُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَتْ خُزَاعَةُ فِي عَيْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمُهَا وَمُشْرِكُهَا، لَا يُخْفُونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا كَانَ بِمَكَّةَ، فقَالُوا: وَإِنْ كَانَ إِنَّمَا جَاءَ لِذَلِكَ، فَلَا وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُهَا أَبَدًا عَلَيْنَا عَنْوَةً، وَلَا تَتَحَدَّثُ بِذَلِكَ الْعَرَبُ. ثُمَّ بَعَثُوا إِلَيْهِ مِكْرَزَ بْنَ حَفْصِ بْنِ الْأَخْيَفِ، أَحَدَ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَذَا رَجُلٌ غَادِرٌ"، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوٍ مِمَّا كَلَّمَ بِهِ أَصْحَابَهُ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى قُرَيْشٍ، فَأَخْبَرَهُمْ بِمَا قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَبَعَثُوا إِلَيْهِ الْحِلْسَ بْنَ عَلْقَمَةَ الْكِنَانِيَّ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ سَيِّدُ الْأَحَابِشِ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" هَذَا مِنْ قَوْمٍ يَتَأَلَّهُونَ، فَابْعَثُوا الْهَدْيَ فِي وَجْهِهِ"، فَبَعَثُوا الْهَدْيَ، فَلَمَّا رَأَى الْهَدْيَ يَسِيلُ عَلَيْهِ مِنْ عَرْضِ الْوَادِي فِي قَلَائِدِهِ قَدْ أَكَلَ أَوْبارَهُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّهِ، رَجَعَ، وَلَمْ يَصِلْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِعْظَامًا لِمَا رَأَى، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، قَدْ رَأَيْتُ مَا لَا يَحِلُّ صَدُّهُ: الْهَدْيَ فِي قَلَائِدِهِ قَدْ أَكَلَ أَوْتَارَهُ مِنْ طُولِ الْحَبْسِ عَنْ مَحِلِّهِ، فَقَالُوا: اجْلِسْ، فإِنَّمَا أَنْتَ أَعْرَابِيٌّ لَا عِلْمَ لَكَ، فَبَعَثُوا إِلَيْهِ عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مَا يَلْقَى مِنْكُمْ مَنْ تَبْعَثُونَ إِلَى مُحَمَّدٍ إِذَا جَاءَكُمْ مِنَ التَّعْنِيفِ وَسُوءِ اللَّفْظِ، وَقَدْ عَرَفْتُمْ أَنَّكُمْ وَالِدٌ وَأَنِّي وَلَدٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ بِالَّذِي نَابَكُمْ، فَجَمَعْتُ مَنْ أَطَاعَنِي مِنْ قَوْمِي، ثُمَّ جِئْتُ حَتَّى آسَيْتُكُمْ بِنَفْسِي، قَالُوا: صَدَقْتَ، مَا أَنْتَ عِنْدَنَا بِمُتَّهَمٍ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، جَمَعْتَ أَوْبَاشَ النَّاسِ، ثُمَّ جِئْتَ بِهِمْ لِبَيْضَتِكَ لِتَفُضَّهَا، إِنَّهَا قُرَيْشٌ قَدْ خَرَجَتْ مَعَهَا الْعُوذُ الْمَطَافِيلُ، قَدْ لَبِسُوا جُلُودَ النُّمُورِ، يُعَاهِدُونَ اللَّهَ أَنْ لَا تَدْخُلَهَا عَلَيْهِمْ عَنْوَةً أَبَدًا، وَأَيْمُ اللَّهِ، لَكَأَنِّي بِهَؤُلَاءِ قَدْ انْكَشَفُوا عَنْكَ غَدًا، قَالَ وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ، فَقَالَ: امْصُصْ بَظْرَ اللَّاتِ، أَنَحْنُ نَنْكَشِفُ عَنْهُ؟ قَالَ: مَنْ هَذَا يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ:" هَذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ"، قَالَ: أما وَاللَّهِ لَوْلَا يَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي، لَكَافَأْتُكَ بِهَا، وَلَكِنَّ هَذِهِ بِهَا، ثُمَّ تَنَاوَلَ لِحْيَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ وَاقِفٌ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَدِيدِ، قَالَ: يَقْرَعُ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمْسِكْ يَدَكَ عِنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ وَاللَّهِ لَا تَصِلُ إِلَيْكَ، قَالَ: وَيْحَكَ، مَا أَفَظَّكَ وَأَغْلَظَكَ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ هَذَا يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ:" هَذَا ابْنُ أَخِيكَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ" قَالَ: أَغُدَرُ، هَلْ غَسَلْتَ سَوْأَتَكَ إِلَّا بِالْأَمْسِ، قَالَ: فَكَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ مَا كَلَّمَ بِهِ أَصْحَابَهُ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ لَمْ يَأْتِ يُرِيدُ حَرْبًا، قَالَ: فَقَامَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَأَى مَا يَصْنَعُ بِهِ أَصْحَابُهُ ؛ لَا يَتَوَضَّأُ وُضُوءًا إِلَّا ابْتَدَرُوهُ، وَلَا يَبْسُقُ بُسَاقًا إِلَّا ابْتَدَرُوهُ، وَلَا يَسْقُطُ مِنْ شَعَرِهِ شَيْءٌ إِلَّا أَخَذُوهُ، فَرَجَعَ إِلَى قُرَيْشٍ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنِّي جِئْتُ كِسْرَى فِي مُلْكِهِ، وَجِئْتُ قَيْصَرَ وَالنَّجَاشِيَّ فِي مُلْكِهِمَا، وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ مَلِكًا، قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ فِي أَصْحَابِهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسْلِمُونَهُ لِشَيْءٍ أَبَدًا، فَرُوا رَأْيَكُمْ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ بَعَثَ خِرَاشَ بْنَ أُمَيَّةَ الْخُزَاعِيَّ إِلَى مَكَّةَ، وَحَمَلَهُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ: الثَّعْلَبُ، فَلَمَّا دَخَلَ مَكَّةَ عَقَرَتْ بِهِ قُرَيْشٌ، وَأَرَادُوا قَتْلَ خِرَاشٍ، فَمَنَعَهُمْ الْأَحَابِشُ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا عُمَرَ لِيَبْعَثَهُ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَخَافُ قُرَيْشًا عَلَى نَفْسِي وَلَيْسَ بِهَا مِنْ بَنِي عَدِيٍّ أَحَدٌ يَمْنَعُنِي وَقَدْ عَرَفَتْ قُرَيْشٌ عَدَاوَتِي إِيَّاهَا، وَغِلْظَتِي عَلَيْهَا، وَلَكِنْ أَدُلُّكَ عَلَى رَجُلٍ هُوَ أَعَزُّ مِنِّي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَهُ إِلَى قُرَيْشٍ يُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ لَمْ يَأْتِ لِحَرْبٍ، وَأَنَّهُ جَاءَ زَائِرًا لِهَذَا الْبَيْتِ، مُعَظِّمًا لِحُرْمَتِهِ، فَخَرَجَ عُثْمَانُ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ، وَلَقِيَهُ أَبَانُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، فَنَزَلَ عَنْ دَابَّتِهِ وَحَمَلَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَرَدِفَ خَلْفَهُ، وَأَجَارَهُ حَتَّى بَلَّغَ رِسَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ عُثْمَانُ حَتَّى أَتَى أَبَا سُفْيَانَ وَعُظَمَاءَ قُرَيْشٍ فَبَلَّغَهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَرْسَلَهُ بِهِ، فَقَالُوا لِعُثْمَانَ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تَطُوفَ بِالْبَيْتِ فَطُفْ بِهِ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ حَتَّى يَطُوفَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَاحْتَبَسَتْهُ قُرَيْشٌ عِنْدَهَا، فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمِينَ أَنَّ عُثْمَانَ قَدْ قُتِلَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَحَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، أَنَّ قُرَيْشًا بَعَثُوا سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو، أَحَدَ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، فَقَالُوا: ائْتِ مُحَمَّدًا فَصَالِحْهُ، وَلَا يَكُونُ فِي صُلْحِهِ إِلَّا أَنْ يَرْجِعَ عَنَّا عَامَهُ هَذَا، فَوَاللَّهِ لَا تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّهُ دَخَلَهَا عَلَيْنَا عَنْوَةً أَبَدًا. فَأَتَاهُ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَلَمَّا رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قَدْ أَرَادَ الْقَوْمُ الصُّلْحَ حِينَ بَعَثُوا هَذَا الرَّجُلَ"، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمَا، وَأَطَالَا الْكَلَامَ، وَتَرَاجَعَا حَتَّى جَرَى بَيْنَهُمَا الصُّلْحُ، فَلَمَّا الْتَأَمَ الْأَمْرُ وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا الْكِتَابُ وَثَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَوَلَيْسَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِينَ؟ أَوَلَيْسُوا بِالْمُشْرِكِينَ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلاَمَ نُعْطِي الذِّلَّةَ فِي دِينِنَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا عُمَرُ، الْزَمْ غَرْزَهُ حَيْثُ كَانَ، فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ عُمَرُ: وَأَنَا أَشْهَدُ. ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَسْنَا بِالْمُسْلِمِينَ؟ أَوَلَيْسُوا بِالْمُشْرِكِينَ؟ قَالَ:" بَلَى"، قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِي الذِّلَّةَ فِي دِينِنَا؟ فَقَالَ:" أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، لَنْ أُخَالِفَ أَمْرَهُ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي"، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: مَا زِلْتُ أَصُومُ وَأَتَصَدَّقُ وَأُصَلِّي وَأَعْتِقُ مِنَ الَّذِي صَنَعْتُ مَخَافَةَ كَلَامِي الَّذِي تَكَلَّمْتُ بِهِ يَوْمَئِذٍ حَتَّى رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ خَيْرًا، قَالَ: وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ"، فَقَالَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو: لاَ أَعْرِفُ هَذَا، وَلَكِنْ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ، هَذَا مَا صَالَحَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو"، فَقَالَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو: لَوْ شَهِدْتُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُقَاتِلْكَ، وَلَكِنْ اكْتُبْ هَذَا مَا اصْطَلَحَ عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَسُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلَى وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِينَ، يَأْمَنُ فِيهَا النَّاسُ، وَيَكُفُّ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ، عَلَى أَنَّهُ مَنْ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَصْحَابِهِ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهِ رَدَّهُ عَلَيْهِمْ، وَمَنْ أَتَى قُرَيْشًا مِمَّنْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرُدُّوهُ عَلَيْهِ، وَإِنَّ بَيْنَنَا عَيْبَةً مَكْفُوفَةً، وَإِنَّهُ لَا إِسْلَالَ وَلَا إِغْلَالَ وَكَانَ فِي شَرْطِهِمْ حِينَ كَتَبُوا الْكِتَابَ أَنَّهُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَدْخُلَ فِي عَقْدِ مُحَمَّدٍ وَعَهْدِهِ دَخَلَ فِيهِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَدْخُلَ فِي عَقْدِ قُرَيْشٍ وَعَهْدِهِمْ دَخَلَ فِيهِ، فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَةُ، فَقَالُوا: نَحْنُ مَعَ عَقْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَهْدِهِ، وَتَوَاثَبَتْ بَنُو بَكْرٍ، فَقَالُوا: نَحْنُ فِي عَقْدِ قُرَيْشٍ وَعَهْدِهِمْ، وَأَنَّكَ تَرْجِعُ عَنَّا عَامَنَا هَذَا، فَلَا تَدْخُلْ عَلَيْنَا مَكَّةَ، وَأَنَّهُ إِذَا كَانَ عَامُ قَابِلٍ، خَرَجْنَا عَنْكَ، فَتَدْخُلُهَا بِأَصْحَابِكَ، وَأَقَمْتَ فِيهِمْ ثَلَاثًا مَعَكَ سِلَاحُ الرَّاكِبِ لَا تَدْخُلْهَا بِغَيْرِ السُّيُوفِ فِي الْقُرُبِ، فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ إِذْ جَاءَهُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو فِي الْحَدِيدِ قَدْ انْفَلَتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجُوا وَهُمْ لَا يَشُكُّونَ فِي الْفَتْحِ لِرُؤْيَا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَوْا مَا رَأَوْا مِنَ الصُّلْحِ وَالرُّجُوعِ، وَمَا تَحَمَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفْسِهِ، دَخَلَ النَّاسَ مِنْ ذَلِكَ أَمْرٌ عَظِيمٌ حَتَّى كَادُوا أَنْ يَهْلَكُوا، فَلَمَّا رَأَى سُهَيْلٌ أَبَا جَنْدَلٍ، قَامَ إِلَيْهِ، فَضَرَبَ وَجْهَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قَدْ لُجَّتْ الْقَضِيَّةُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكَ هَذَا، قَالَ:" صَدَقْتَ"، فَقَامَ إِلَيْهِ، فَأَخَذَ بِتَلْبِيبِهِ، قَالَ: وَصَرَخَ أَبُو جَنْدَلٍ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ، أَتَرُدُّونَنِي إِلَى أَهْلِ الشِّرْكِ، فَيَفْتِنُونِي فِي دِينِي، قَالَ: فَزَادَ النَّاسُ شَرًّا إِلَى مَا بِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا جَنْدَلٍ، اصْبِرْ وَاحْتَسِبْ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَاعِلٌ لَكَ وَلِمَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا، إِنَّا قَدْ عَقَدْنَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ صُلْحًا، فَأَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ، وَأَعْطَوْنَا عَلَيْهِ عَهْدًا، وَإِنَّا لَنْ نَغْدِرَ بِهِمْ"، قَالَ: فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَعَ أَبِي جَنْدَلٍ، فَجَعَلَ يَمْشِي إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَقُولُ: اصْبِرْ أَبَا جَنْدَلٍ، فَإِنَّمَا هُمْ الْمُشْرِكُونَ، وَإِنَّمَا دَمُ أَحَدِهِمْ دَمُ كَلْبٍ، قَالَ: وَيُدْنِي قَائِمَ السَّيْفِ مِنْهُ، قَالَ: يَقُولُ: رَجَوْتُ أَنْ يَأْخُذَ السَّيْفَ، فَيَضْرِبَ بِهِ أَبَاهُ. قَالَ: فَضَنَّ الرَّجُلُ بِأَبِيهِ، وَنَفَذَتْ الْقَضِيَّةُ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنَ الْكِتَابِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْحَرَمِ وَهُوَ مُضْطَرِبٌ فِي الْحِلِّ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، انْحَرُوا وَاحْلِقُوا"، قَالَ: فَمَا قَامَ أَحَدٌ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ بِمِثْلِهَا، فَمَا قَامَ رَجُلٌ، حَتَّى عَادَ بِمِثْلِهَا، فَمَا قَامَ رَجُلٌ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَ:" يَا أُمَّ سَلَمَةَ مَا شَأْنُ النَّاسِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ دَخَلَهُمْ مَا قَدْ رَأَيْتَ، فَلَا تُكَلِّمَنَّ مِنْهُمْ إِنْسَانًا، وَاعْمِدْ إِلَى هَدْيِكَ حَيْثُ كَانَ فَانْحَرْهُ وَاحْلِقْ، فَلَوْ قَدْ فَعَلْتَ ذَلِكَ فَعَلَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُكَلِّمُ أَحَدًا حَتَّى أَتَى هَدْيَهُ، فَنَحَرَهُ، ثُمَّ جَلَسَ، فَحَلَقَ، فَقَامَ النَّاسُ يَنْحَرُونَ وَيَحْلِقُونَ، قَالَ: حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فِي وَسَطِ الطَّرِيقِ، فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ .
حضرت مسوربن مخرمہ اور مروان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال مدینہ سے چلے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب ایک ہزار چند سو آدمی تھے عسفان کے قریب پہنچے تھے کہ جاسوس " جس کا نام بشر بن سفیان کعبی تھا " واپس آیا اور عرض کیا کہ قریش نے آپ کے مقابلہ کے لئے بہت فوجیں جمع کی ہیں اور مختلف قبائل کو اکٹھا کیا ہے وہ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اور خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے آپ کو روک دیں گے اور خالد بن ولید بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر کراع غمیم تک بڑھ آئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمراہیان کو مخاطب کرکے فرمایا لوگو! کیا مشورہ ہے کیا میں ان کے اہل و عیال کی طرف مائل ہوجاؤں اور جو لوگ خانہ کعبہ سے مجھے روکنا چاہتے ہیں میں ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرلوں اگر وہ لوگ اپنے بال بچوں کی مدد کو آئیں گے تو ان کا گروہ ٹوٹ جائے گا ورنہ ہم ان کو مفلس کرکے چھوڑ دیں گے بہرحال ان کا نقصان ہے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خانہ کعبہ کی نیت سے چلے ہیں لڑائی کے ارادے سے نہیں نکلے آپ کو خانہ کعبہ کا رخ کرنا چاہئے پھر جو ہم کو روکے گا ہم اس سے لڑیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا (تو خدا کا نام لے کر چل دو) چناچہ سب چلے دئیے۔ اثنا راہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالد بن ولید قریش کے (دو سو) سواروں کے لئے (مقام) غمیم میں ہمارا راستہ روکے پڑا ہے لہٰذا تم بھی داہنی طرف کو ہی (خالد کی جانب) چلو سب لوگوں نے داہنی طرف کا رخ کرلیا اور اس وقت تک خالد کو خبر نہ ہوئی جب تک لشکر کا غبار اڑتا ہوا انہوں نے دیکھ نہ لیا، غبار اڑتا دیکھ کر خالد نے جلدی سے جاکر قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ڈرایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول چلتے رہے یہاں تک کہ جب اس پہاڑی پر پہنچے جس کی طرف سے لوگ مکہ میں اترتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن اونٹنی نہ اٹھی وہیں جم گئی لوگ کہنے لگے کہ قصواء (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام تھا) اڑگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء خود نہیں اڑی ہے اس کی یہ عادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اس نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل کو روکا تھا۔ پھر فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مکہ والے عظمت حرم برقرار رکھنے کے لئے مجھ سے جو کچھ خواہش کریں گے میں دے دوں گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو جھڑکا اونٹنی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کی راہ سے بچ کر دوسری طرف کا رخ کرکے چلے اور حدیبیہ سے دوسری طرف اس جگہ اترے جہاں تھوڑا تھوڑا پانی تھا۔ لوگوں نے وہی تھوڑا پانی لے لیاجب سب پانی کھینچ چکے اور پانی بالکل نہ رہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی نہ ہونے کی شکایت آئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر صحابہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور حکم دیا کہ اس کو پانی میں رکھ دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی۔ جونہی تیر کو پانی میں رکھا فوراً پانی میں ایسا جوش آیا کہ سب لوگ سیراب ہو کر واپس ہوئے اور پانی پھر بھی بچ رہا۔ اسی دوران بدیل بن ورقہ خزاعی جو رسول اللہ کا راز دار تھا اپنی قوم کے آدمیوں کو ہمراہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ میں خاندان کعب بن لوی اور قبائل عامر بن لوی حدیبیہ کے جاری پانی پر چھوڑ کر آیا ہوں ان کے ساتھ دودھ والی اونٹنیاں بھی ہیں اور ان کے اہل و عیال بھی ہیں اور تعداد میں حدیبیہ کے پانی کے قطروں کے برابر ہیں وہ آپ سے لڑنے کے لئے اور آپ کو خانہ کعبہ سے روک دینے کے لئے تیار ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے صرف عمرہ کرنے آئے ہیں۔ انہی لڑائیوں نے قریش کو کمزور کردیا ہے اور نقصان پہنچائے ہیں۔ اگر وہ صلح کرنا چاہیں تو میں ان کے لئے مدت مقرر کردوں گا کہ اس میں نہ ہم ان سے لڑیں اور نہ وہ ہم سے لڑیں۔ باقی دیگر کفار عرب کے معاملہ میں وہ دخل نہ دیں اس دوران اگر کافر مجھ پر غالب آگئے تو ان کی مراد حاصل ہوجائے گی اور اگر میں کافروں پر غالب آگیا تو قریش کو اختیار ہے اگر وہ اس (دین) میں داخل ہونا چاہیں گے جس میں اور لوگ داخل ہوگئے تو داخل ہوجائیں اور اگر مسلمان ہونا نہ چاہیں تو مدت صلح میں تو ان کو تکلیف اٹھانی ہی نہیں پڑے گی۔ اگر قریش ان باتوں میں سے کسی کو نہ مانیں گے تو اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں اپنے امر (دین) پر ان سے اس وقت تک برابر لڑتا رہوں گا جب تک میری گردن تن سے جدا نہ ہوجائے اور یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غلبہ عطاء فرمائے گا۔ بدیل بولا میں آپ کی بات قریش

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 18911
Save to word اعراب
حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت النعمان يحدث، عن الزهري ، عن علي بن حسين ، عن المسور بن مخرمة ، ان عليا خطب ابنة ابي جهل، فوعد بالنكاح، فاتت فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن قومك يتحدثون انك لا تغضب لبناتك، وان عليا قد خطب ابنة ابي جهل، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله، واثنى عليه، وقال: " إنما فاطمة بضعة مني، واني اكره ان تفتنوها" وذكر ابا العاص بن الربيع، فاكثر عليه الثناء وقال:" لا يجمع بين ابنة نبي الله وبنت عدو الله" فرفض علي ذلك .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ يُحَدِّثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، فَوَعَدَ بِالنِّكَاحِ، فَأَتَتْ فَاطِمَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَأَنَّ عَلِيًّا قَدْ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: " إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَأَنَي أَكْرَهُ أَنْ تَفْتِنُوهَا" وَذَكَرَ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَأَكْثَرَ عَلَيْهِ الثَّنَاءَ وَقَالَ:" لَا يُجْمَعُ بَيْنَ ابْنَةِ نَبِيِّ اللَّهِ وَبِنْتِ عَدُوِّ اللَّهِ" فَرَفَضَ عَلِيٌّ ذَلِكَ .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں عنہا کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے دامادحضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3729، م: 2449، النعمان ضعيف، سيئ الحفظ، لكنه متابع

Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.