حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن عطاء ، عن عائش بن انس ، سمعه عن علي يعني على منبر الكوفة: كنت اجد المذي، فاستحييت ان اساله ان ابنته عندي، فقلت لعمار : سله، فساله، فقال: " يكفي منه الوضوء" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَائِشِ بْنِ أَنَسٍ ، سَمِعَهُ عَنْ عَلِيٍّ يَعْنِي عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ: كُنْتُ أَجِدُ الْمَذْيَ، فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَهُ أَنَّ ابْنَتَهُ عِنْدِي، فَقُلْتُ لِعَمَّارٍ : سَلْهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: " يَكْفِي مِنْهُ الْوُضُوءُ" .
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ برسر منبر کوفہ فرمایا کہ مجھے مذی کے خروج کا مرض تھا، میں اس وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرماتا تھا کہ ان کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں تو میں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم یہ مسئلہ پوچھو، انہوں نے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی صورت میں وضو کافی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عائش بن أنس
18461 حدثنا عثمان بن عمر ، قال: حدثنا يونس ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، ان عمار بن ياسر كان يحدث ان الرخصة التي انزل الله عز وجل في الصعيد. فذكر الحديث، إلا انه قال: " إنهم ضربوا اكفهم في الصعيد، فمسحوا به وجوههم مسحة واحدة، ثم عادوا فضربوا، فمسحوا ايديهم إلى المناكب والآباط" .18461 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ الرُّخْصَةَ الَّتِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الصَّعِيدِ. فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّهُمْ ضَرَبُوا أَكُفَّهُمْ فِي الصَّعِيدِ، فَمَسَحُوا بِهِ وُجُوهَهُمْ مَسْحَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ عَادُوا فَضَرَبُوا، فَمَسَحُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ" .
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عبيدالله بن عبدالله لم يدرك عمارا
حدثنا صفوان بن عيسى ، اخبرنا ابن عجلان ، عن سعيد المقبري ، عن عمر بن الحكم ، عن عبد الله بن عنمة ، قال: رايت عمار بن ياسر دخل المسجد فصلى، فاخف الصلاة، قال: فلما خرج، قمت إليه، فقلت: يا ابا اليقظان، لقد خففت، قال: فهل رايتني انتقصت من حدودها شيئا؟! قلت: لا، قال: فإني بادرت بها سهوة الشيطان، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن العبد ليصلي الصلاة، ما يكتب له منها إلا عشرها، تسعها، ثمنها، سبعها، سدسها، خمسها، ربعها، ثلثها، نصفها" .حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَجْلاَنَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَنَمَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى، فَأَخَفَّ الصَّلَاَةَ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ، قُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، لَقَدْ خَفَّفْتَ، قَالَ: فَهَلْ رَأَيْتَنِي انْتَقَصْتُ مِنْ حُدُودِهَا شَيْئًا؟! قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنِّي بَادَرْتُ بِهَا سَهْوَةَ الشَّيْطَانِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الْعَبْدَ لَيُصَلِّي الصَّلاَةَ، مَا يُكْتَبُ لَهُ مِنْهَا إِلَاَّ عُشْرُهَا، تُسْعُهَا، ثُمُنُهَا، سُبُعُهَا، سُدُسُهَا، خُمُسُهَا، رُبُعُهَا، ثُلُثُهَا، نِصْفُهَا" .
ابوبکربن عبدالرحمن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے اور دو ہلکی لیکن مکمل رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد بیٹھ گئے ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے ان سے عرض کیا کہ اے ابوالیقظان! آپ نے یہ دو رکعتیں تو بہت ہی ہلکی پڑھی ہیں؟ انہوں نے فرمایا کیا میں نے اس کی حدود میں کچھ کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں البتہ آپ نے بہت مختصر کر کے پڑھا ہے انہوں نے فرمایا میں نے ان رکعتوں میں بھولنے پر سبقت کی ہے کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھتا ہے لیکن اسے نماز کا دسواں، نواں، آٹھواں، یا ساتواں حصہ ہی نصیب ہوپاتا ہے یہاں تک کہ آخری عدد تک پہنچ گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن عنمة إن لم يكن صحابياً فهو مجهول الحال
حدثنا يحيى بن زكريا ، قال: اخبرنا حجاج ، عن حسين بن الحارث الجدلي ، قال: خطب عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب في اليوم الذي يشك فيه، فقال: الا إني قد جالست اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وسالتهم، الا وإنهم حدثوني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " صوموا لرؤيته، وافطروا لرؤيته، وانسكوا لها، فإن غم عليكم فاتموا ثلاثين، وإن شهد شاهدان مسلمان، فصوموا وافطروا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ الْحَارِثِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ: خَطَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، فَقَالَ: أَلَا إِنِّي قَدْ جَالَسْتُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلْتُهُمْ، أَلَا وَإِنَّهُمْ حَدَّثُونِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، وانْسَُكُّوا لَهَا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَتِمُّوا ثَلَاثِينَ، وَإِنْ شَهِدَ شَاهِدَانِ مُسْلِمَانِ، فَصُومُوا وَأَفْطِرُوا" .
ایک مرتبہ عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے یوم شک کے حوالے سے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنہم کی مجالس میں بیٹھا ہوں اور میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ اور قربانی کرو اور اگر بادل چھائے ہوں تو تیس کا عدد پورا کرو اور اگر دو مسلمان چاند دیکھنے کی گواہی دے دیں تو روزہ رکھ لیا کرو اور عید منالیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کے رات کے کس حصے میں دعاء سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کے آخری پہر میں۔ اور جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن كعب بن مرة
حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا سفيان ، عن منصور ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن رجل ، عن كعب بن مرة البهزي ، قال: قلت: يا رسول الله، اي الليل اسمع؟ قال: " جوف الليل الآخر" قال: ثم قال:" ثم الصلاة مقبولة حتى يصلى الفجر، ثم لا صلاة حتى تكون الشمس قيد رمح او رمحين، ثم الصلاة مقبولة حتى يقوم الظل قيام الرمح، ثم لا صلاة حتى تزول الشمس، ثم الصلاة مقبولة حتى تكون الشمس قيد رمح او رمحين، ثم لا صلاة حتى تغرب الشمس" . قال: " إذا غسلت وجهك، خرجت خطاياك من وجهك، وإذا غسلت يديك خرجت خطاياك من يديك، وإذا غسلت رجليك خرجت خطاياك من رجليك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ الْبَهْزِيّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ اللَّيْلِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرِ" قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" ثُمَّ الصَّلاَةُ مَقْبُولَةٌ حَتَّى يُصَلَّى الْفَجْرُ، ثُمَّ لَاَ صَلاَةَ حَتَّى تَكُونَ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ، ثُمَّ الصَّلَاَةُ مَقْبُولَةٌ حَتَّى يَقُومَ الظِّلُّ قِيَامَ الرُّمْحِ، ثُمَّ لَاَ صَلاَةَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، ثُمَّ الصَّلَاَةُ مَقْبُولَةٌ حَتَّى تَكُونَ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ، ثُمَّ لَا صَلاَةَ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ" . قَالَ: " إِذَا غَسَلْتَ وَجْهَكَ، خَرَجَتْ خَطَايَاكَ مِنْ وَجْهِكَ، وَإِذَا غَسَلْتَ يَدَيْكَ خَرَجَتْ خَطَايَاكَ مِنْ يَدَيْكَ، وَإِذَا غَسَلْتَ رِجْلَيْكَ خَرَجَتْ خَطَايَاكَ مِنْ رِجْلَيْكَ" .
حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کے رات کے کس حصے میں دعاء سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کے آخری پہر میں، پھر نماز فجر تک نماز قبول ہوتی ہے نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے حتٰی کہ سورج ایک یا دو نیزوں کے برابر ہوجائے پھر نماز مقبول ہوتی ہے حتی کہ سایہ ایک نیزے کے برابر ہوجائے پھر زوال شمس تک کوئی نماز نہیں ہے پھر نماز مقبول ہوتی ہے حتیٰ کہ سورج ایک دو نیزوں کے برابررہ جائے پھر غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے اور فرمایا کہ جب تم اپنا چہرہ دھوتے ہو تو چہرے کے گناہ خارج ہوجاتے ہیں ہاتھ دھوتے ہو تو ان کے گناہ خارج ہوجاتے ہیں اور پاؤں دھوتے ہو تو پاؤں کے گناہ نکل جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن كعب بن مرة
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثني سفيان العصفري ، عن ابيه ، عن حبيب بن النعمان الاسدي ، احد بني عمرو بن اسد، عن خريم بن فاتك الاسدي ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح، فلما انصرف قام قائما، فقال: " عدلت شهادة الزور الإشراك بالله عز وجل" ثم تلا هذه الآية: واجتنبوا قول الزور حنفاء لله غير مشركين به سورة الحج آية 30 - 31 .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ الْعُصْفُرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الْأَسَدِيِّ ، أَحَدُ بَنِي عَمْرِو بْنِ أَسَدٍ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الْأَسَدِيّ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاَةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ: " عَدَلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ الَإِِِشْرَاكَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلّ" ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الَآيَةَ: وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ سورة الحج آية 30 - 31 .
حضرت خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھی جب نماز سے فارغ ہوئے تو اپنی جگہ کھڑے ہوگئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " جھوٹی بات کہنے سے بچو اللہ کیلئے یکسو ہوجاؤ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة والد سفيان العصفري
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن شمر ، عن خريم رجل من بني اسد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا ان فيك اثنتين كنت انت"، قال: إن واحدة تكفيني، قال:" تسبل إزارك، وتوفر شعرك"، قال: لا جرم والله لا افعل .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ شِمْرٍ ، عَنْ خُرَيْمٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَاَ أَنْ فِيكَ اثْنَتَيْنِ كُنْتَ أَنْتَ"، قَالَ: إِنْ وَاحِدَةً تَكْفِينِي، قَالَ:" تُسْبِلُ إِزَارَكَ، وَتُوَفِّرُ شَعْرَكَ"، قَالَ: لَاَ جَرَمَ وَاللَّهِ لَا أَفْعَلُ .
حضرت خریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم میں دو چیزیں نہ ہوتی تو تم تم ہوتے عرض کیا کہ مجھے ایک ہی بات کافی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنا تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکاتے ہو اور بال خوب لمبے کرتے ہو عرض کیا اللہ کی قسم! اب یقینا ایسا نہیں کروں گا۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه، وهذا إسناد ضعيف، شهر لم يدرك خريم بن فاتك . لا يدرى أسمع معمر من أبى إسحاق قبل الاختلاط أم بعده؟ لكنه تويع
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن الركين بن الربيع ، عن رجل ، عن خريم بن فاتك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الاعمال ستة، والناس اربعة، فموجبتان، ومثل بمثل، وحسنة بعشر امثالها، وحسنة بسبع مئة، فاما الموجبتان، فمن مات لا يشرك بالله شيئا، دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار، واما مثل بمثل، فمن هم بحسنة حتى يشعرها قلبه، ويعلمها الله منه كتبت له حسنة، ومن عمل سيئة، كتبت عليه سيئة، ومن عمل حسنة فبعشر امثالها، ومن انفق نفقة في سبيل الله فحسنة بسبع مئة، واما الناس، فموسع عليه في الدنيا مقتور عليه في الآخرة، ومقتور عليه في الدنيا موسع عليه في الآخرة، ومقتور عليه في الدنيا والآخرة، وموسع عليه في الدنيا والآخرة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اْلَأََعْمَالُ سِتَّةٌ، وَالنَّاسُ أَرْبَعَةٌ، فَمُوجِبَتَانِ، وَمِثْلٌ بِمِثْلٍ، وَحَسَنَةٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَحَسَنَةٌ بِسَبْعِ مِئَةٍ، فَأَمَّا الْمُوجِبَتَانِ، فَمَنْ مَاتَ لَاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ، وَأَمَّا مِثْلٌ بِمِثْلٍ، فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ حَتَّى يَشْعُرَهَا قَلْبُهُ، وَيَعْلَمَهَا اللَّهُ مِنْهُ كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً، كُتِبَتْ عَلَيْهِ سَيِّئَةً، وَمَنْ عَمِلَ حَسَنَةً فَبِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَمَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَحَسَنَةٌ بِسَبْعِ مِئَةٍ، وَأَمَّا النَّاسُ، فَمُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا مَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ، وَمَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا مُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الَآْْخِرَةِ، وَمَقْتُورٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالَآْخِرَةِ، وَمُوَسَّعٌ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" .
حضرت خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اعمال چھ طرح کے ہیں اور لوگ چار طرح کے ہیں دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں ایک چیز برابر برابر ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا اور ایک نیکی کا ثواب سات سو گنا ہے واجب کرنے والی دو چیزیں تو یہ ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا مرے وہ جہنم میں داخل ہوگا اور برابر سرابر یہ ہے کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اس کے دل میں اس کا احساس پیدا ہو اور اللہ کے علم میں ہو تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جو شخص برائی کا عمل سر انجام دے اس کے لئے ایک برائی لکھی جاتی ہے جو شخص ایک نیکی کرے اس کے لئے وہ دس گنا لکھی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں خرچ کرے تو ایک نیکی سات سو گنا تک شمار ہوتی ہے۔ باقی رہے لوگ تو ان میں سے بعض پر دنیا میں کشادگی اور آخرت میں تنگی ہوتی ہے بعض پر دنیا میں تنگی اور آخرت میں کشادگی بعض پر دنیا و آخرت دونوں میں تنگی اور بعض پر دنیا و آخرت دونوں میں کشادگی ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على الركين بن الربيع
حضرت خریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم میں دو چیزیں نہ ہوتی تو تم تم ہوتے عرض کیا کہ مجھے ایک ہی بات کافی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنا تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکاتے ہو اور بال خوب لمبے کرتے ہو (عرض کیا اللہ کی قسم! اب یقینا ایسا نہیں کروں گا)۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه، شمر بن عطية لم يدرك خريم بن فاتك . سماع أبى بكر بن عياش من أبى إسحاق ليس بذاك القوي لكنه توبع