حضرت ابوالسنابل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے صرف ٢٣ یا ٢٥ دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی اور وہ دوسرے رشتے کے لئے تیار ہونے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی نے آکر اس کی خبردی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتی ہے تو (ٹھیک ہے کیونکہ) اس کی عدت گذر چکی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، الأسود لم يسمع من أبى السنابل حديث زياد بن عبد الله عن غير إبن إسحاق لين ، لكنه توبع
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شيبان ، عن منصور . وعفان ، قال: حدثنا شعبة ، حدثنا منصور ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن ابي السنابل بن بعكك ، قال: وضعت سبيعة بنت الحارث بعد وفاة زوجها بثلاث وعشرين او خمس وعشرين ليلة، فلما تعلت، تشوفت للنكاح، فانكر ذلك عليها، وذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن تفعل فقد حل اجلها" . قال عفان:" فقد خلى اجلها".حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ . وَعَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ بْنِ بَعْكَكٍ ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ أَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ، تَشَوَّفَتْ لِلنِّكَاحِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ حَلَّ أَجَلُهَا" . قَالَ عَفَّانُ:" فَقَدْ خَلَى أَجَلُهَا".
حضرت ابوالسنابل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے صرف ٢٣ یا ٢٥ دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی اور وہ دوسرے رشتے کے لئے تیار ہونے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی نے آکر اس کی خبر دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتی ہے تو (ٹھیک ہے کیونکہ) اس کی عدت گذر چکی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، الأسود لم يسمع من أبى السنابل
حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام حزورہ جو مکہ کی ایک منڈی میں واقع تھا " میں کھڑے ہو کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ واللہ تو اللہ کی سب سے بہترین سر زمین ہے اور اللہ کو سب سے محبوب زمین ہے اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔
حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام حزورہ جو مکہ کی ایک منڈی میں واقع تھا " میں کھڑے ہو کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ واللہ تو اللہ کی سب سے بہترین سر زمین ہے اور اللہ کو سب سے محبوب زمین ہے اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، قال: وقف النبي صلى الله عليه وسلم على الحزورة، فقال: " علمت انك خير ارض الله، واحب الارض إلى الله عز وجل، ولولا ان اهلك اخرجوني منك ما خرجت" . قال عبد الرزاق: والحزورة عند باب الحناطين.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحَزْوَرَةِ، فَقَالَ: " عَلِمْتُ أَنَّكِ خَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ، وَأَحَبُّ الْأَرْضِ إِلَى اللَّهِ عز وجل، وَلَوْلَا أَنَّ أَهْلَكِ أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا خَرَجْت" . قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَالْحَزْوَرَةُ عِنْدَ بَابِ الْحَنَّاطِينَ.
حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام حزورہ جو مکہ کی ایک منڈی میں واقع تھا " میں کھڑے ہو کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ واللہ تو اللہ کی سب سے بہترین سر زمین ہے اور اللہ کو سب سے محبوب زمین ہے اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح على وهم فى إسناده ، فقد خالف فيه معمر الرواة عن الزهري
حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام حزورہ جو مکہ کی ایک منڈی میں واقع تھا " میں کھڑے ہو کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ واللہ تو اللہ کی سب سے بہترین سر زمین ہے اور اللہ کو سب سے محبوب زمین ہے اگر مجھے یہاں سے نکالانہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔
حدثنا ابو زكريا يحيى بن إسحاق من كتابه، اخبرنا ابن لهيعة . وحدثنا إسحاق بن عيسى ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن عمرو، عن ابي ثور ، وقال إسحاق: الفهمي، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فاتي بثوب من ثياب المعافر، فقال ابو سفيان: لعن الله هذا الثوب، ولعن من يعمل له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تلعنهم، فإنهم مني وانا منهم" . وقال إسحاق: ولعن الله من يعمله.حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ مِنْ كِتَابِهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ . وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي ثَوْرٍ ، وَقَالَ إِسْحَاقُ: الْفَهْمِيُّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَأُتِيَ بِثَوْبٍ مِنْ ثِيَابِ الْمَعَافِرِ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: لَعَنَ اللَّهُ هَذَا الثَّوْبَ، وَلَعَنَ مَنْ يَعْمَلُ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لاَ تَلْعَنْهُمْ، فَإِنَّهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ" . وقَالَ إِسْحَاقُ: وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ يَعْمَلُهُ.
حضرت ابوثور فہمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خاکستری رنگ کا ایک کپڑا لایا گیا حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اس کپڑے پر اور اس کے بنانے والے پر اللہ کی لعنت ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں پر لعنت مت بھیجو کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سمع إسحاق بن عيسى من ابن لهيعة قبل احتراق كتبه ويحيي بن إسحاق من قدماء أصحابه إلا أنه تفرد به، وهو ممن لا يحتمل تفرده
حدثنا روح ، حدثنا قرة بن خالد ، عن ضرغامة بن عليبة بن حرملة العنبري ، قال: حدثني ابي ، عن ابيه ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، اوصني، قال: " اتق الله، وإذا كنت في مجلس فقمت منه فسمعتهم يقولون ما يعجبك، فاته، وإذا سمعتهم يقولون ما تكره فاتركه" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ضِرْغَامَةَ بْنِ عُلَيْبَةَ بْنِ حَرْمَلَةَ الْعَنْبَرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْصِنِي، قَالَ: " اتَّقِ اللَّهَ، وَإِذَا كُنْتَ فِي مَجْلِسِ فقمت منه فَسَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ مَا يُعْجِبُكَ، فَأْتِهِ، وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ مَا تَكْرَهُ فَاتْرُكْهُ" .
حضرت حرملہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت فرمادیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرا کرو اور جب کسی مجلس میں شریک ہونے کے بعد وہاں سے اٹھو اور ان سے کوئی اچھی بات سنو تو اس پر عمل کرو اور کسی بری بات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنو تو اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ضرغامة بن عليبة ، ووالده
حدثنا وكيع ، حدثنا سلمة بن نبيط ، عن ابيه ، وكان قد حج مع النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" رايته يخطب يوم عرفة على بعيره" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَكَانَ قَدْ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَيْتُهُ يَخْطُبُ يَوْمَ عَرَفَةَ عَلَى بَعِيرِهِ" .
حضرت نبی ط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تھا " کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفہ کے دن اپنے اونٹ پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه
حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة ، حدثني ابو مالك الاشجعي ، حدثني نبيط بن شريط ، قال: إني لرديف ابي في حجة الوداع، إذ تكلم النبي صلى الله عليه وسلم، فقمت على عجز الراحلة، فوضعت يدي على عاتق ابي، فسمعته يقول:" اي يوم احرم؟" قالوا: هذا اليوم، قال:" فاي بلد احرم؟" قالوا: هذا البلد، قال:" فاي شهر احرم؟" قالوا: هذا الشهر، قال:" فإن دماءكم واموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، هل بلغت؟" قالوا: نعم، قال:" اللهم اشهد، اللهم اشهد" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنِي أَبُو مَالِكٍ الْأَََشْجَعِيُّ ، حَدَّثَنِي نُبَيْطُ بْنُ شَرِيطٍ ، قَالَ: إِنِّي لَرَدِيفُ أَبِي فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، إِذْ تَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُمْتُ عَلَى عَجُزِ الرَّاحِلَةِ، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى عَاتِقِ أَبِي، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ؟" قَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ، قَالَ:" فَأَيُّ بَلَدٍ أَحْرَمُ؟" قَالُوا: هَذَا الْبَلَدُ، قَالَ:" فَأَيُّ شَهْرٍ أَحْرَمُ؟" قَالُوا: هَذَا الشَّهْرُ، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، هَلْ بَلَّغْت؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ" .
حضرت نبی ط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں اپنے والد صاحب کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خطبہ شروع فرمایا تو میں اپنی سواری کے پچھلے حصے پر کھڑا ہوگیا اور اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھ لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آج کا دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سب زیادہ حرمت والا شہر کون سا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا یہی شہر (مکہ) پھر پوچھا کہ سب سے زیادہ حرمت والا مہینہ کون سا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا موجودہ مہینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہاری جان اور مال ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام و حرمت ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں، اس مہینے کے اس دن کی حرمت ہے کیا میں نے تم تک پیغام پہنچا دیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو گواہ رہ اے اللہ! تو گواہ رہ۔