حدثنا عبد الرزاق ، وابن بكر ، قالا: انا ابن جريج . ح وحدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني عبدة بن ابي لبابة ، ان ورادا مولى المغيرة بن شعبة اخبره، ان المغيرة بن شعبة كتب إلى معاوية كتب ذلك الكتاب له وراد: إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول حين يسلم: " لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد" . قال وراد: ثم وفدت بعد ذلك على معاوية، فسمعته على المنبر يامر الناس بذلك القول، ويعلمهموه.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالاَ: أَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ ، أَنَّ وَرَّادًا مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ كَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ كَتَبَ ذَلِكَ الْكِتَابَ لَهُ وَرَّادٌ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ يُسَلِّمُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ" . قَالَ وَرَّادٌ: ثُمَّ وَفَدْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَمِعْتُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَأْمُرُ النَّاسَ بِذَلِكَ الْقَوْلِ، وَيُعَلِّمُهُمُوهُ.
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا " جو ان کے کاتب وراد نے لکھا تھا " کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پھیرتے وقت یہ کلمات کہتے ہوئے سنا ہے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کی ہیں اے اللہ! جسے آپ دیں اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور آپ کے سامنے کسی مرتبے والے کا مرتبہ کام نہیں آسکتا وراد کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ایک مرتبہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے برسر منبر انہیں لوگوں کو یہ کلمات کہنے کا حکم دیتے ہوئے سنا وہ لوگوں کو یہ کلمات سکھا رہے تھے۔
حدثنا قران بن تمام ، عن سعيد بن عبيد الطائي ، عن علي بن ربيعة الاسدي ، قال: مات رجل من الانصار يقال له: قرظة بن كعب، فنيح عليه، فخرج المغيرة بن شعبة ، فصعد المنبر، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال: ما بال النوح في الإسلام ؟! اما إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن كذبا علي ليس ككذب على احد، الا ومن كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار" . الا وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من ينح عليه، يعذب بما يناح به عليه" .حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ الطَّائِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْأَسَدِيِّ ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَه: قَرَظَةُ بْنُ كَعْبٍ، فَنِيحَ عَلَيْهِ، فَخَرَجَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثم قَالَ: مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الْإِسْلَام ِ؟! أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، أَلَا وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ" . أَلَا وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ يُنَحْ عَلَيْهِ، يُعَذَّبْ بِمَا يُنَاحُ بِهِ عَلَيْه" .
علی بن ربیعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قرطہ بن کعب نامی ایک انصاری فوت ہوگیا اس پر آہ وبکاء شروع ہوگئی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے نکلے اور منبر پر چڑھ کر اللہ کی حمد وثناء کرنے بعد فرمایا اسلام میں یہ کیسا نوحہ؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ پر جھوٹ باندھنا عام آدمی پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے یاد رکھو! جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتا ہے اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کرلینا چاہئے۔ یاد رکھو! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص پر نوحہ کیا جاتا ہے اسے اس نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
حدثنا عبدة بن سليمان ابو محمد الكلابي ، حدثنا مجالد ، عن الشعبي ، عن المغيرة بن شعبة ، قال: وضات النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فغسل وجهه وذراعيه، ومسح براسه، ومسح على خفيه، فقلت: يا رسول الله، الا انزع خفيك؟ قال:" لا، إني ادخلتهما وهما طاهرتان، ثم لم امش حافيا بعد" ثم صلى صلاة الصبح .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْكِلَابِيُّ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: وَضَّأْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَنْزِعُ خُفَّيْكَ؟ قَالَ:" لَا، إِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا وَهُمَا طَاهِرَتَانِ، ثُمَّ لَمْ أَمْشِ حَافِيًا بَعْدُ" ثُمَّ صَلَّى صَلَاةَ الصُّبْح .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ اور بازو دھوئے اور سر اور موزوں پر مسح فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے موزے اتار نہ دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے یہ وضو کی حالت میں پہنے تھے پھر میں انہیں اتار کر نہیں چلا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز اسی طرح پڑھ لی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 182، م: 274، مجالد ضعيف، لكنه توبع
قال عبد الله: وجدت في كتاب ابي بخط يده: حدثني عبد المتعال بن عبد الوهاب ، حدثنا يحيى بن سعيد الاموي ، حدثنا المجالد ، عن عامر ، قال: كسفت الشمس ضحوة حتى اشتدت ظلمتها، فقام المغيرة بن شعبة ، فصلى بالناس، فقام قدر ما يقرا سورة من المثاني، ثم ركع مثل ذلك، ثم رفع راسه، ثم ركع مثل ذلك، ثم رفع راسه فقام مثل ذلك، ثم ركع الثانية مثل ذلك، ثم إن الشمس تجلت، فسجد، ثم قام قدر ما يقرا سورة، ثم ركع وسجد، ثم انصرف، فصعد المنبر، فقال: إن الشمس كسفت يوم توفي إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد، وإنما هما آيتان من آيات الله عز وجل، فإذا انكسف واحد منهما، فافزعوا إلى الصلاة" . ثم نزل، فحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في الصلاة، فجعل ينفخ بين يديه، ثم إنه مد يده كانه يتناول شيئا، فلما انصرف، قال:" إن النار ادنيت مني حتى نفخت حرها عن وجهي، فرايت فيها صاحب المحجن، والذي بحر البحيرة، وصاحبة حمير صاحبة الهرة" ..قال عبد الله: وجدتُ في كتاب أبي بخط يده: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُتَعَالِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُجَالِدُ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ ضَحْوَةً حَتَّى اشْتَدَّتْ ظُلْمَتُهَا، فَقَامَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ سُورَةً مِنَ الْمَثَانِي، ثُمَّ رَكَعَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَكَعَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَامَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ رَكَعَ الثَّانِيَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِنَّ الشَّمْسَ تَجَلَّتْ، فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ سُورَةً، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ كَسَفَتْ يَوْمَ تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَإِنَّمَا هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِذَا انْكَسَفَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ" . ثُمَّ نَزَلَ، فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي الصَّلَاةِ، فَجَعَلَ يَنْفُخُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ إِنَّهُ مَدَّ يَدَهُ كَأَنَّهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّ النَّارَ أُدْنِيَتْ مِنِّي حَتَّى نَفَخْتُ حَرَّهَا عَنْ وَجْهِي، فَرَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ، وَالَّذِي بَحَرَ الْبَحِيرَةَ، وَصَاحِبَةَ حِمْيَرَ صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ" ..
عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ چاشت کے وقت سورج گرہن ہوگیا اور آسمان اتنہائی تاریک ہوگیا حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر اٹھے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے انہوں نے اتنا طویل قیام کیا کہ جس میں " مثانی " کی ایک سورت پڑھی جاسکتی تھی اتنا ہی طویل رکوع کیا رکوع سے سر اٹھا کر اتنا ہی طویل رکوع دوبارہ کیا پھر سرا اٹھا کر اتنی ہی دیر کھڑے رہے اور دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھی۔ اتنی دیر میں میں سورج بھی روشن ہوگیا پھر انہوں نے سجدہ و نماز سے فاراغت پائی اور منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا کہ جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اس دن سورج گرہن ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ سورج اور چاند کسی کی موت سے نہیں گہناتے یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں لہٰذا جب ان میں سے کسی ایک کو گہن لگے تو تم فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجایا کرو۔ اس کے بعد انہوں نے منبر سے نیچے اتر کر یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کسوف پڑھا رہے تھے تو اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے پھونکیں مارنا شروع کردیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا جیسے کوئی چیز پکڑنا چاہ رہے ہوں اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ جہنم میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ میں پھونکیں مار کر اس کی گرمی اپنے چہرے سے دور کرنے لگا میں نے جہنم میں لاٹھی والے کو بھی دیکھا جانوروں کو بتوں کے نام پر چھورنے کی رسم ایجاد کرنے والے کو بھی اور بلی کو باندھنے والی حمیری عورت کو بھی دیکھا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لضعف مجالد، وعبدالمتعال بن عبد الوهاب مستور، لكنه توبع
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوہذیل کی دو عورتوں کے بارے قاتلہ کے عصبات پر دیت کا فیصلہ فرمایا اور ورثہ کے لئے میراث کا اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کے ضائع ہونے پر ایک باندی یا غلام کا فیصلہ فرمایا۔
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا بكير ، عن عبد الرحمن بن ابي نعم ، حدثنا المغيرة بن شعبة ، انه سافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم واديا، فقضى حاجته، ثم خرج فاتاه، فتوضا، فخلع خفيه، فتوضا، فلما فرغ، وجد ريحا بعد ذلك، فعاد فخرج، فتوضا، ومسح على خفيه، فقلت: يا نبي الله، نسيت، لم تخلع الخفين، قال:" كلا، بل انت نسيت، بهذا امرني ربي عز وجل" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا بُكَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ، أَنَّهُ سَافَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَادِيًا، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ فَأَتَاهُ، فَتَوَضَّأَ، فَخَلَعَ خُفَّيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَلَمَّا فَرَغَ، وَجَدَ رِيحًا بَعْدَ ذَلِكَ، فَعَادَ فَخَرَجَ، فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، نَسِيتَ، لَمْ تَخْلَعْ الْخُفَّيْنِ، قَالَ:" كَلَّا، بَلْ أَنْتَ نَسِيتَ، بِهَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وادی میں قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے وہاں سے واپس آکر وضو کیا اور موزے اتار کر وضو کیا وضو سے فارغ ہونے کے بعد خروج ریح کا احساس ہوا تو دوربارہ چلے گئے واپس آکر وضو کیا اور اس مرتبہ موزوں پر ہی مسح کرلیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! شاید آپ بھول گئے کہ آپ نے موزے نہیں اتارے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قطعاً نہیں تم بھول گئے ہو مجھے تو میرے رب نے یہی حکم دیا ہے۔
حكم دارالسلام: ضعيف بهذه السياقة، تفرد بها بكير، وهو ضعيف
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وقد كنت حفظت من كثير من علمائنا بالمدينة ان محمد بن عمرو بن حزم كان يروي، عن المغيرة احاديث منها انه حدثه انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من غسل ميتا فليغتسل" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَقَدْ كُنْتُ حَفِظْتُ مِنْ كَثِيرٍ مِنْ عُلَمَائِنَا بِالْمَدِينَةِ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ كَانَ يَرْوِي، عَنِ الْمُغِيرَةِ أَحَادِيثَ مِنْهَا أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا فَلْيَغْتَسِلْ" .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میت کو غسل دے اسے خود بھی غسل کرلینا چاہئے۔
حكم دارالسلام: وقال الأئمة الكبار: لا يصح من هذا الباب شيئ
حدثنا حسين ، حدثنا شيبان ، عن منصور ، عن الشعبي ، عن وراد ، عن المغيرة بن شعبة قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله كره لكم ثلاثا: قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال، وحرم عليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم: واد البنات، وعقوق الامهات، ومنع وهات" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ وَرَّادٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا: قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَحَرَّمَ عَلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأْدَ الْبَنَاتِ، وَعُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، وَمَنَعَ وَهَاتِ" .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تین چیزوں کو تمہارے حق میں ناپسند کرتا ہے قیل وقال، کثرت سوال اور مال کو ضائع کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم پر بچیوں کو زندہ درگور کرنا ماؤں کی نافرمانی کرنا اور مال کو روک کر رکھنا اور دست سوال کرنا حرام قرار دیا ہے۔
حدثنا ابو سعيد ، حدثنا زائدة ، حدثنا منصور ، عن إبراهيم ، عن عبيد بن نضيلة ، عن المغيرة بن شعبة ، ان امراة ضربتها امراة بعمود فسطاط، فقتلتها وهي حبلى، فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم، " فقضى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم على عصبة القاتلة بالدية، وفي الجنين غرة" . فقال: عصبتها اندي من لا طعم، ولا شرب، ولا صاح، فاستهل، مثل ذلك يطل. فقال:" سجع مثل سجع الاعراب". وقال شعبة : سمعت عبيدا .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، أَنَّ امْرَأَةً ضَرَبَتْهَا امْرَأَةٌ بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ، فَقَتَلَتْهَا وَهِيَ حُبْلَى، فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَقَضَى فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ بِالدِّيَةِ، وَفِي الْجَنِينِ غُرَّةٌ" . فَقَالَ: عَصَبَتُهَا أَنْدِي مَنْ لَا طَعِمَ، وَلَا شَرِبَ، وَلَا صَاحَ، فَاسْتَهَلَّ، مِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ. فَقَالَ:" سَجْعٌ مِثْلُ سَجْعِ الْأَعْرَابِ". وقَالَ شُعْبَةُ : سَمِعْتُ عُبَيْدًا .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو عورتوں کی لڑائی ہوئی، ان میں سے ایک نے دوسری کو اپنے خیمے کی چوب مار کر قتل کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتلہ کے عصبات پر دیت کا فیصلہ فرمایا اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کے ضائع ہونے پر ایک باندی یا غلام کا فیصلہ فرمایا ایک دیہاتی کہنے لگا کہ آپ مجھ پر اس جان کا تاوان عائد کرتے ہیں جس نے کھایا نہ پیا، چیخا اور نہ چلایا، ایسی جان کا معاملہ تو ٹال دیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیہاتیوں جیسی تک بندی ہے لیکن فیصلہ پھر بھی وہی ہے کہ اس بچے کے قصاص میں ایک غلام یا باندی ہے۔