قال عبد الله: وجدت في كتاب ابي بخط يده: حدثني عبد المتعال بن عبد الوهاب ، حدثنا يحيى بن سعيد الاموي ، حدثنا المجالد ، عن عامر ، قال: كسفت الشمس ضحوة حتى اشتدت ظلمتها، فقام المغيرة بن شعبة ، فصلى بالناس، فقام قدر ما يقرا سورة من المثاني، ثم ركع مثل ذلك، ثم رفع راسه، ثم ركع مثل ذلك، ثم رفع راسه فقام مثل ذلك، ثم ركع الثانية مثل ذلك، ثم إن الشمس تجلت، فسجد، ثم قام قدر ما يقرا سورة، ثم ركع وسجد، ثم انصرف، فصعد المنبر، فقال: إن الشمس كسفت يوم توفي إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد، وإنما هما آيتان من آيات الله عز وجل، فإذا انكسف واحد منهما، فافزعوا إلى الصلاة" . ثم نزل، فحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في الصلاة، فجعل ينفخ بين يديه، ثم إنه مد يده كانه يتناول شيئا، فلما انصرف، قال:" إن النار ادنيت مني حتى نفخت حرها عن وجهي، فرايت فيها صاحب المحجن، والذي بحر البحيرة، وصاحبة حمير صاحبة الهرة" ..قال عبد الله: وجدتُ في كتاب أبي بخط يده: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُتَعَالِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُجَالِدُ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: كَسَفَتْ الشَّمْسُ ضَحْوَةً حَتَّى اشْتَدَّتْ ظُلْمَتُهَا، فَقَامَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ سُورَةً مِنَ الْمَثَانِي، ثُمَّ رَكَعَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَكَعَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَامَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ رَكَعَ الثَّانِيَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِنَّ الشَّمْسَ تَجَلَّتْ، فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ سُورَةً، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ كَسَفَتْ يَوْمَ تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَإِنَّمَا هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِذَا انْكَسَفَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ" . ثُمَّ نَزَلَ، فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي الصَّلَاةِ، فَجَعَلَ يَنْفُخُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ إِنَّهُ مَدَّ يَدَهُ كَأَنَّهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" إِنَّ النَّارَ أُدْنِيَتْ مِنِّي حَتَّى نَفَخْتُ حَرَّهَا عَنْ وَجْهِي، فَرَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ، وَالَّذِي بَحَرَ الْبَحِيرَةَ، وَصَاحِبَةَ حِمْيَرَ صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ" ..
عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ چاشت کے وقت سورج گرہن ہوگیا اور آسمان اتنہائی تاریک ہوگیا حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر اٹھے اور لوگوں کو نماز پڑھانے لگے انہوں نے اتنا طویل قیام کیا کہ جس میں " مثانی " کی ایک سورت پڑھی جاسکتی تھی اتنا ہی طویل رکوع کیا رکوع سے سر اٹھا کر اتنا ہی طویل رکوع دوبارہ کیا پھر سرا اٹھا کر اتنی ہی دیر کھڑے رہے اور دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھی۔ اتنی دیر میں میں سورج بھی روشن ہوگیا پھر انہوں نے سجدہ و نماز سے فاراغت پائی اور منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا کہ جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اس دن سورج گرہن ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ سورج اور چاند کسی کی موت سے نہیں گہناتے یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں لہٰذا جب ان میں سے کسی ایک کو گہن لگے تو تم فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجایا کرو۔ اس کے بعد انہوں نے منبر سے نیچے اتر کر یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کسوف پڑھا رہے تھے تو اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے پھونکیں مارنا شروع کردیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا جیسے کوئی چیز پکڑنا چاہ رہے ہوں اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ جہنم میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ میں پھونکیں مار کر اس کی گرمی اپنے چہرے سے دور کرنے لگا میں نے جہنم میں لاٹھی والے کو بھی دیکھا جانوروں کو بتوں کے نام پر چھورنے کی رسم ایجاد کرنے والے کو بھی اور بلی کو باندھنے والی حمیری عورت کو بھی دیکھا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لضعف مجالد، وعبدالمتعال بن عبد الوهاب مستور، لكنه توبع