حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد ، حدثنا سليمان الاعمش ، حدثنا شقيق ، قال: كنت قاعدا مع عبد الله وابي موسى الاشعري، فقال ابو موسى لعبد الله: لو ان رجلا لم يجد الماء، لم يصل؟ فقال عبد الله: لا، فقال ابو موسى : اما تذكر إذ قال عمار لعمر: الا تذكر إذ بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم وإياك في إبل، فاصابتني جنابة، فتمرغت في التراب، فلما رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، اخبرته، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" إنما كان يكفيك ان تقول هكذا": وضرب بكفيه إلى الارض، ثم مسح كفيه جميعا، ومسح وجهه مسحة واحدة بضربة واحدة؟ . فقال عبد الله: لا جرم ما رايت عمر قنع بذلك؟ قال: فقال له ابو موسى: فكيف بهذه الآية في سورة النساء: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة النساء آية 43؟ قال: فما درى عبد الله ما يقول، وقال: لو رخصنا لهم في التيمم، لاوشك احدهم إن برد الماء على جلده ان يتيمم. قال عفان: وانكره يحيى يعني ابن سعيد، فسالت حفص بن غياث، فقال: كان الاعمش يحدثنا به عن سلمة بن كهيل، وذكر ابا وائل.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَمْ يَجِدْ الْمَاء، لَمْ يُصَلِّ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَمَا تَذْكُرُ إِذْ قَالَ عَمَّارٌ لِعُمَرَ: أَلَا تَذْكُرُ إِذْ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِيَّاكَ فِي إِبِلٍ، فَأَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَمَرَّغْتُ فِي التُّرَابِ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرْتُهُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ هَكَذَا": وَضَرَبَ بِكَفَّيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ مَسَحَ كَفَّيْهِ جَمِيعًا، وَمَسَحَ وَجْهَهُ مَسْحَةً وَاحِدَةً بِضَرْبَةٍ وَاحِدَةٍ؟ . فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا جَرَمَ مَا رَأَيْتُ عُمَرَ قَنَعَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي سُورَةِ النِّسَاءِ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43؟ قَالَ: فَمَا دَرَى عَبْدُ اللَّهِ مَا يَقُولُ، وَقَالَ: لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي التَّيَمُّمِ، لَأَوْشَكَ أَحَدُهُمْ إِنْ بَرَدَ الْمَاءُ عَلَى جِلْدِهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ. قَالَ عَفَّانُ: وَأَنْكَرَهُ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، فَسَأَلْتُ حَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ، فَقَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ يُحَدِّثُنَا بِهِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَذَكَرَ أَبَا وَائِلٍ.
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں سنی کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا مجھ پر دوران سفر غسل واجب ہوگیا مجھے پانی نہیں ملا تو میں اسی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگیا جیسے چوپائے ہوتے ہیں پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس واقعے کا بھی ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے تو صرف یہی کافی تھا، یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ مارا پھر دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر ملا اور چہرے پر مسح کرلیا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بات پر قناعت نہیں کی تھی؟ شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے ابوعبدالرحمن! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی ناپاک ہوجائے اور اسے پانی نہ ملے تو کیا وہ ایک مہینے تک جنبی ہی رہے گا اسے تیمم کرنے کی اجازت نہ ہوگی؟ انہوں نے فرمایا نہیں خواہ ایک مہینے تک پانی نہ ملے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر سورت مائدہ کی اس آیت کا کیا کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو " حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی گئی تو وہ معمولی سردی میں بھی مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھنے لگیں گے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا آپ صرف اسی وجہ سے ہی اسے مکروہ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں سنی کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا مجھ پر دوران سفر غسل واجب ہوگیا مجھے پانی نہیں ملا تو میں اسی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگیا جیسے چوپائے ہوتے ہیں پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس واقعے کا بھی ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے تو صرف یہی کافی تھا، یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ مارا پھر دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر ملا اور چہرے پر مسح کرلیا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بات پر قناعت نہیں کی تھی؟
حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن ابي وائل ، قال: قال ابو موسى لعبد الله بن مسعود: إن لم نجد الماء لا نصلي؟ قال: فقال عبد الله:" نعم، إن لم نجد الماء شهرا، لم نصل، ولو رخصت لهم في هذا، كان إذا وجد احدهم البرد، قال هكذا، يعني تيمم، وصلى" . قال: فقلت له: فاين قول عمار لعمر؟ قال: إني لم ار عمر قنع بقول عمار.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: إِنْ لَمْ نَجِدْ الْمَاءَ لَا نُصَلِّي؟ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" نَعَمْ، إِنْ لَمْ نَجِدْ الْمَاءَ شَهْرًا، لَمْ نُصَلِّ، وَلَوْ رَخَّصْتُ لَهُمْ فِي هَذَا، كَانَ إِذَا وَجَدَ أَحَدُهُمْ الْبَرْدَ، قَالَ هَكَذَا، يَعْنِي تَيَمَّمَ، وَصَلَّى" . قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: فَأَيْنَ قَوْلُ عَمَّارٍ لِعُمَرَ؟ قَالَ: إِنِّي لَمْ أَرَ عُمَرَ قَنَعَ بِقَوْلِ عَمَّارٍ.
ابو وائل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے ابوعبدالرحمن! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی ناپاک ہوجائے اور اسے پانی نہ ملے تو کیا وہ ایک مہینے تک جنبی ہی رہے گا اسے تیمم کرنے کی اجازت نہ ہوگی؟ انہوں نے فرمایا نہیں خواہ ایک مہینے تک پانی نہ ملے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر سورت مائدہ کی اس آیت کا کیا کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو " حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی گئی تو وہ معمولی سردی میں بھی مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھنے لگیں گے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو بات فرمائی تھی وہ کہاں جائے گی؟
حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت ابا وائل ، قال: لما بعث علي عمارا والحسن إلى الكوفة ليستنفراهم، فخطب عمار ، فقال: " إني لاعلم انها زوجته في الدنيا والآخرة، ولكن الله عز وجل ابتلاكم لتتبعوه او إياها" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَ عَلِيٌّ عَمَّارًا وَالْحَسَنَ إِلَى الْكُوفَةِ لِيَسْتَنْفِرَاهُمْ، فَخَطَبَ عَمَّارٌ ، فَقَالَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ابْتَلَاكُمْ لِتَتَّبِعُوهُ أَوْ إِيَّاهَا" .
ابو وائل کہتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور امام حسن رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ انہیں کوچ کرنے پر آمادہ کرسکیں تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے وہاں تقریر کرتے ہوئے فرمایا میں جانتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ دنیا و آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس آزمائش میں مبتلا کیا ہے کہ تم ان کی پیروی کرتے ہو یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ذر ، عن ابن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، ان رجلا اتى عمر، فقال: إني اجنبت، فلم اجد ماء، فقال عمر: لا تصل، فقال عمار : اما تذكر يا امير المؤمنين، إذ انا وانت في سرية، فاجنبنا، فلم نجد ماء، فاما انت، فلم تصل، واما انا فتمعكت في التراب فصليت، فلما اتينا النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال:" إنما كان يكفيك": وضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيده إلى الارض، ثم نفخ فيها، ومسح بها وجهه وكفيه ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدْ مَاءً، فَقَالَ عُمَرُ: لَا تُصَلِّ، فَقَالَ عَمَّارٌ : أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ، فَأَجْنَبْنَا، فَلَمْ نَجِدْ مَاءً، فَأَمَّا أَنْتَ، فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ": وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهَا، وَمَسَحَ بِهَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ ..
عبدالرحمن بن ابزی کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھ پر غسل واجب ہوگیا ہے اور مجھے پانی نہیں مل رہا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نماز مت پڑھو، حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے ہم دونوں پر غسل واجب ہوگیا اور پانی نہیں ملا تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی جبکہ میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے اتنا ہی کافی تھا یہ کہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر ہاتھ مارا پھر اس پر پھونک ماری اور اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر پھیرلیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی آخر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس جواب کے ساتھ منقول ہے کہ کیوں نہیں، ہم تمہیں اس چیز کے سپرد کرتے ہیں جو تم اختیار کرلو۔
حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، قال: كنت جالسا مع عبد الله وابي موسى، فقال ابو موسى : يا ابا عبد الرحمن، الرجل يجنب ولا يجد الماء، ايصلي؟ قال: لا. قال: الم تسمع قول عمار لعمر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثنا انا وانت، فاجنبت فتمعكت بالصعيد، فاتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرناه، فقال:" إنما كان يكفيك هكذا": ومسح وجهه وكفيه واحدة . فقال: إني لم ار عمر قنع بذلك. قال: فكيف تصنعون بهذه الآية: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة النساء آية 43؟ قال: إنا لو رخصنا لهم في هذا، كان احدهم إذا وجد الماء البارد، تمسح بالصعيد. قال الاعمش: فقلت لشقيق: فما كرهه إلا لهذا؟.حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الرَّجُلُ يُجْنِبُ وَلَا يَجِدُ الْمَاءَ، أَيُصَلِّي؟ قَالَ: لَا. قَالَ: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا أَنَا وَأَنْتَ، فَأَجْنَبْتُ فَتَمَعَّكْتُ بِالصَّعِيدِ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا": وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ وَاحِدَةً . فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَرَ عُمَرَ قَنَعَ بِذَلِكَ. قَالَ: فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43؟ قَالَ: إِنَّا لَوْ رَخَّصْنَا لَهُمْ فِي هَذَا، كَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا وَجَدَ الْمَاءَ الْبَارِدَ، تَمَسَّحَ بِالصَّعِيدِ. قَالَ الْأَعْمَشُ: فَقُلْتُ لِشَقِيقٍ: فَمَا كَرِهَهُ إِلَّا لِهَذَا؟.
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے ابوعبدالرحمن! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی ناپاک ہوجائے اور اسے پانی نہ ملے تو کیا وہ نماز پڑھے گا انہوں نے فرمایا نہیں حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں سنی کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا مجھ پر دوران سفر غسل واجب ہوگیا مجھے پانی نہیں ملا تو میں اسی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگیا جیسے چوپائے ہوتے ہیں پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس واقعے کا بھی ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے تو صرف یہی کافی تھا یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنا ہاتھ مارا پھر دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر ملا اور چہرے پر مسح کرلیا؟ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بات پر قناعت نہیں کی؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر آیت تیمم کا کیا کریں؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر ہم لوگوں کو یہ رخصت دے دیں تو معمولی سردی میں بھی وہ تیمم کرنے لگیں گے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن جابر ، عن الشعبي ، عن عبد الله بن ثابت ، قال: جاء عمر بن الخطاب إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني مررت باخ لي من بني قريظة، فكتب لي جوامع من التوراة، الا اعرضها عليك؟ قال: فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله يعني ابن ثابت: فقلت له: الا ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! فقال عمر: رضينا بالله تعالى ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا، قال: فسري عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقال:" والذي نفس محمد بيده، لو اصبح فيكم موسى، ثم اتبعتموه وتركتموني، لضللتم، إنكم حظي من الامم، وانا حظكم من النبيين" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنَ التَّوْرَاةِ، أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ: فَقُلْتُ لَهُ: أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَقَالَ عُمَرُ: رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، قَالَ: فَسُرِّيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى، ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي، لَضَلَلْتُمْ، إِنَّكُمْ حَظِّي مِنَ الْأُمَمِ، وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنَ النَّبِيِّين" .
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا خالد ، عن ابي العلاء بن الشخير ، عن اخيه مطرف ، عن عياض بن حمار ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من التقط لقطة، فليشهد ذا عدل او ذوي عدل، ثم لا يكتم ولا يغيب، فإن جاء ربها، فهو احق بها، وإلا فإنما هو مال الله يؤتيه من يشاء" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ أَخِيهِ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ الْتَقَطَ لُقَطَةً، فَلْيُشْهِدْ ذَا عَدْلٍ أَوْ ذَوَيْ عَدْلٍ، ثُمَّ لَا يَكْتُمْ وَلَا يُغَيِّبْ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا، فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا، وَإِلَّا فَإِنَّمَا هُوَ مَالُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ" .
حضرت عیاض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گری پڑی ہوئی چیز پائے تو اسے چاہئے کہ اس پر دو عادل آدمیوں کو گواہ بنالے اور اس کی تھیلی اور منہ بند کو اچھی طرح ذہن میں محفوظ کرلے پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے مت چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر اس کا مالک نہ آئے تو وہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔
حضرت عیاض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب دو آدمی گالی گلوچ کرتے ہیں تو اس کا گناہ آغاز کرنے والے پر ہوتا ہے الاّ یہ کہ مظلوم بھی حد سے آگے بڑھ جائے اور وہ دو شخص جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں وہ دونوں شیطان ہوتے ہیں جو کہ بکواس اور جھوٹ بولتے ہیں۔
حدثنا حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن قتادة ، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير ، عن عياض بن حمار المجاشعي ، رفع الحديث، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل امرني ان اعلمكم ما جهلتم مما علمني يومي هذا وإنه قال: إن كل مال نحلته عبادي، فهو لهم حلال" ، فذكر نحو حديث هشام، عن قتادة. وقال: " واهل النار خمسة: الضعيف الذي لا زبر له، الذين هم فيكم تبع لا يبتغون اهلا ولا مالا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِيِّ ، رَفَعَ الْحَدِيثَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا وَإِنَّهُ قَالَ: إِنَّ كُلَّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عِبَادِي، فَهُوَ لَهُمْ حَلَالٌ" ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ. وَقَالَ: " وَأَهْلُ النَّارِ خَمْسَةٌ: الضَّعِيفُ الَّذِي لَا زَبْرَ لَهُ، الَّذِينَ هُمْ فِيكُمْ تَبَعٌ لَا يَبْتَغُونَ أَهْلًا وَلَا مَالًا" .
حضرت عیاض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نے آج جو باتیں مجھے سکھائی ہیں اور تم ان سے ناواقف ہو، میں تمہیں وہ باتیں سکھاؤں، (چنانچہ میرے رب نے فرمایا ہے کہ) ہر وہ مال جو میں نے اپنے بندوں کو ہبہ کردیا ہے وہ حلال ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا کہ اہل جہنم پانچ طرح کے لوگ ہوں گے وہ کمزور آدمی جس کے پاس مال و دولت نہ ہو اور وہ تم میں تابع شمار ہوتا ہو، جو اہل خانہ اور مال کے حصول کے لئے محنت بھی نہ کرتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔