حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے دن (واپسی پر) ارشاد فرمایا اب ہم ان پر پیش قدمی کرکے جہاد کریں گے اور یہ ہمارے خلاف اب کبھی پیش قدمی نہیں کرسکیں گے۔
عبداللہ بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ اور خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کی پاس بیٹھا ہوا تھا وہ دونوں پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر مرنے والے ایک آدمی کے جنازے میں شرکت کا ارادہ رکھتے تھے اسی دوران ایک نے دوسرے سے کہا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہو کر مرے اسے قبر میں عذاب نہیں ہوگا؟ دوسرے نے کہا کیوں نہیں۔
عبداللہ بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ اور خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کی پاس بیٹھا ہوا تھا وہ دونوں پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر مرنے والے ایک آدمی کے جنازے میں شرکت کا ارادہ رکھتے تھے اسی دوران ایک نے دوسرے سے کہا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہو کر مرے اسے قبر میں عذاب نہیں ہوگا؟ دوسرے نے کہا کیوں نہیں۔
حدثنا قران ، حدثنا سعيد الشيباني ابو سنان ، عن ابي إسحاق ، قال: مات رجل صالح، فاخرج بجنازته، فلما رجعنا، تلقانا خالد بن عرفطة ، وسليمان بن صرد وكلاهما قد كانت له صحبة، فقالا: سبقتمونا بهذا الرجل الصالح، فذكروا انه كان به بطن، وانهم خشوا عليه الحر، قال: فنظر احدهما إلى صاحبه فقال: اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من قتله بطنه لم يعذب في قبره" ؟.حَدَّثَنَا قُرَانٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الشَّيْبَانِيُّ أَبُو سِنَانٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَأُخْرِجَ بِجِنَازَتِهِ، فَلَمَّا رَجَعْنَا، تَلَقَّانَا خَالِدُ بْنُ عُرْفُطَةَ ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ وَكِلَاهُمَا قَدْ كَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، فَقَالَا: سَبَقْتُمُونَا بِهَذَا الرَّجُلِ الصَّالِحِ، فَذَكَرُوا أَنَّهُ كَانَ بِهِ بَطْنٌ، وَأَنَّهُمْ خَشُوا عَلَيْهِ الْحَرَّ، قَالَ: فَنَظَرَ أَحَدُهُمَا إِلَى صَاحِبِهِ فَقَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَتَلَهُ بَطْنُهُ لَمْ يُعَذَّبْ فِي قَبْرِهِ" ؟.
ابواسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک نیک آدمی فوت ہو یا ان کے جنازے کو باہر لایا گیا واپسی پر ہماری ملاقات حضرت خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے ہوگئی یہ دونوں حضرات صحابی تھے انہوں نے فرمایا کہ اس نیک آدمی کا جنازہ ہمارے آنے سے پہلے ہی تم لوگوں نے پڑھ لیا لوگوں نے عرض کیا کہ یہ پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہوا تھا گرمی کی وجہ سے لاش کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو دیکھ کر کہا کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جو شخص پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہو کر مرے اسے قبر میں عذاب نہیں ہوگا؟ دوسرے نے کہا کیوں نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد وهم فيه سعيد الشيباني
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي نضرة ، عن قيس بن عباد ، قال: قلت لعمار بن ياسر : يا ابا اليقظان، ارايت هذا الامر الذي اتيتموه برايكم، او شيء عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: " ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ : يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، أَرَأَيْتَ هَذَا الْأَمْرَ الَّذِي أَتَيْتُمُوهُ بِرَأْيِكُمْ، أَوْ شَيْءٌ عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: " مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ" .
قیس بن عباد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے ابوالیقظان! یہ بتائیے کہ جس مسئلے میں آپ لوگ پڑچکے ہیں وہ آپ کی اپنی رائے ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خاص وصیت ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خصوصیت کے ساتھ ایسی کوئی وصیت نہیں فرمائی جو عام لوگوں کو نہ فرمائی ہو۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب مشرکین ہماری ہجو گوئی کرنے لگے تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسے وہ تمہاری ہجو بیان کرتے ہیں اسی طرح تم بھی ان ہجو بیان کرو چناچہ پھر ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ ہم اہل مدینہ کی باندیوں کو وہ اشعار سکھایا کرتے تھے۔
حدثنا ابو بكر بن عياش ، حدثنا ابو إسحاق ، عن ناجية العنزي ، قال: تدارا عمار وعبد الله بن مسعود في التيمم، فقال عبد الله: لو مكثت شهرا لا اجد فيه الماء، لما صليت، فقال له عمار : اما تذكر إذ كنت انا وانت في الإبل، فاجنبت، فتمعكت تمعك الدابة، فلما رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بالذي صنعت، فقال:" إنما كان يكفيك التيمم" .حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ نَاجِيَةَ الْعَنَزِيِّ ، قَالَ: تَدَارَأَ عَمَّارٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ في التيمم، فقال عبد الله: لو مكثت شهرا لا أجد فيه الماء، لما صليت، فقال له عمار : أما تذكر إذ كنت أَنَا وَأَنْتَ فِي الْإِبِلِ، فَأَجْنَبْتُ، فَتَمَعَّكْتُ تَمَعُّكَ الدَّابَّةِ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي صَنَعْتُ، فَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ التَّيَمُّمُ" .
ناجیہ عنزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جنبی کے تیمم کرنے کے مسئلہ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اگر جنابت کے بعد مجھے ایک مہینے تک پانی نہ ملے تب بھی میں غسل کئے بغیر نماز نہیں پڑھوں گا حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا آپ کو وہ واقعہ یاد نہیں ہے جب ایک مرتبہ میں اور آپ اونٹوں کے ایک باڑے میں تھے رات کو مجھ پر غسل واجب ہوگیا تو میں جانور کی طرح مٹی پر لوٹ پوٹ ہوگیا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپسی ہوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے تو تیمم ہی کافی تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، ناجية العنزي لم يسمع من عمار ، وسماع أبى بكر بن عياش ليس بذاك القوي، لكنه توبع
حدثنا يحيى بن عبد الملك بن ابي غنية ، قال: حدثنا عقبة بن المغيرة ، عن جد ابيه المخارق ، قال: لقيت عمارا يوم الجمل وهو يبول في قرن، فقلت: اقاتل معك فاكون معك؟ قال: قاتل تحت راية قومك، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يستحب للرجل ان يقاتل تحت راية قومه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ جَدِّ أَبِيهِ الْمُخَارِقِ ، قَالَ: لَقِيتُ عَمَّارًا يَوْمَ الْجَمَلِ وَهُوَ يَبُولُ فِي قَرْنٍ، فَقُلْتُ: أُقَاتِلُ مَعَكَ فَأَكُونُ مَعَكَ؟ قَالَ: قَاتِلْ تَحْتَ رَايَةِ قَوْمِكَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَسْتَحِبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُقَاتِلَ تَحْتَ رَايَةِ قَوْمِهِ" .
مخارق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے دن حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوگئی وہ ایک سینگ میں پیشاب کر رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کیا میں آپ کی معیت میں قتال کرسکتا ہوں کہ مجھے آپ کی معیت نصیب ہوجائے؟ انہوں نے فرمایا اپنی قوم کے جھنڈے تلے قتال کرو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کو پسند فرماتے تھے کہ انسان اپنی قوم کے جھنڈے تلے قتال کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطرابه، عقبة بن المغيرة مستور، والمخارق مجهول
حدثنا قريش بن إبراهيم ، قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الملك بن ابجر ، عن ابيه ، عن واصل بن حيان ، قال: قال ابو وائل : خطبنا عمار ، فابلغ واوجز، فلما نزل، قلنا: يا ابا اليقظان، لقد ابلغت واوجزت، فلو كنت تنفست، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن طول صلاة الرجل وقصر خطبته مئنة من فقهه، فاطيلوا الصلاة، واقصروا الخطبة، فإن من البيان لسحرا" .حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ : خَطَبَنَا عَمَّارٌ ، فَأَبْلَغَ وَأَوْجَزَ، فَلَمَّا نَزَلَ، قُلْنَا: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ، فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَّسْتَ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَأَقْصِرُوا الْخُطْبَةَ، فَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا" .
ابو وائل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ہمیں انتہائی بلیغ اور مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جب وہ منبر سے نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا اے ابوالیقظان! آپ نے نہایت بلیغ اور مختصر خطبہ دیا اگر آپ درمیان میں سانس لے لیتے (اور طویل گفتگو فرماتے تو کیا خوب ہوتا) انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے انسان کا لمبی نماز اور چھوٹا خطبہ دینا اس کی سمجھ داری کی علامت ہے لہٰذا نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو مختصر کیا کرو کیونکہ بعض بیان جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو نماز پڑھ رہے تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جواب مرحمت فرمایا۔