حدثنا حدثنا سفيان ، حدثنا صالح بن كيسان ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن زيد بن خالد الجهني ، مطر الناس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فلما اصبح، قال:" الم تسمعوا ما قال ربكم عز وجل الليلة؟"، قال: " ما انعمت على عبادي نعمة إلا اصبح بها قوم كافرين بالذي آمن بي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، مُطِرَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَلَمَّا أَصْبَحُ، قَالَ:" أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ؟"، قَالَ: " مَا أَنْعَمْتُ عَلَى عِبَادِي نِعْمَةً إِلَّا أَصْبَحَ بِهَا قَوْمٌ كَافِرِينَ بِالَّذِي آمَنَ بِي" .
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ رات کے وقت بارش ہوئی، جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ تمہارے پروردگار نے آج رات کیا فرمایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندوں پر جب بھی کوئی نعمت اتارتا ہوں تو ان میں سے ایک گروہ اس کی ناشکری کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے، لہٰذا جو شخص مجھ پر ایمان لائے، میرے پانی پلانے پر میری تعریف کرے تو وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے ستاروں کا انکار کرتا ہے اور جو یہ کہتا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے تو وہ ستارے پر ایمان رکھتا ہے اور میرے ساتھ کفر کرتا ہے۔“
حدثنا سفيان ، عن يحيى بن سعيد ، عن يزيد مولى المنبعث، قال يحيى: اخبرني ربيعة انه قال: عن زيد بن خالد ، فسالت ربيعة، فقال: اخبرنيه عن زيد بن خالد ، سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن ضالة الإبل؟ فغضب، واحمرت وجنتاه، وقال: " ما لك ولها، معها الحذاء والسقاء، ترد الماء، وتاكل الشجر، حتى يجيء ربها . وسئل عن ضالة الغنم؟ فقال: " خذها فإنما هي لك، او لاخيك، او للذئب" . وسئل عن اللقطة؟ فقال: " اعرف عفاصها ووكاءها، ثم عرفها سنة، فإن اعترفت، وإلا فاخلطها بمالك" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنِي رَبِيعَةُ أَنَّهُ قَالَ: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، فَسَأَلْتُ رَبِيعَةَ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِيهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ؟ فَغَضِبَ، وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَقَالَ: " مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا الْحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ، تَرِدُ الْمَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ، حَتَّى يَجِيءَ رَبَّهَا . وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: " خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ، أَوْ لِأَخِيكَ، أَوْ لِلذِّئْبِ" . وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: " اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ اعْتُرِفَتْ، وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ" .
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خود یا کسی اور آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کا حکم پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے پکڑ لو گے یا بھیڑیا لے جائے گا، سائل نے پوچھا: یا رسول اللہ! گمشدہ اونٹ ملے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی ناراض ہوئے، حتیٰ کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا: ”تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق؟ اس کے پاس اس کا مشکیزہ اور جوتے ہیں اور وہ درختوں کے پتے کھا سکتا ہے“، پھر سائل نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر مجھے کسی تھیلی میں چاندی مل جائے تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا ظرف، اس کا بندھن اور اس کی تعداد اچھی طرح محفوظ کر کے ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس دوران اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دو، ورنہ وہ تمہاری ہو گئی۔“
حدثنا سفيان ، عن سالم ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله بن معمر، عن بسر بن سعيد ، قال: ارسلني ابو جهيم ابن اخت ابي بن كعب، إلى زيد بن خالد اساله ما سمع في المار بين يدي المصلي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لان يقوم اربعين لا ادري من يوم او شهر او سنة خير له من ان يمر بين يديه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَبُو جُهَيْمٍ ابْنُ أُخْتِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَسْأَلُهُ مَا سَمِعَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَأَنْ يَقُومَ أَرْبَعِينَ لَا أَدْرِي مِنْ يَوْمٍ أَوْ شَهْرٍ أَوْ سَنَةٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ" .
سیدنا بسر بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بھانجے ابوجہیم نے سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے پاس وہ حدیث پوچھنے کے لیے بھیجا جو انہوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے شخص کے متعلق سن رکھی تھی، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انسان کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ چالیس۔۔۔۔۔ تک کھڑا رہے، یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دن فرمایا، مہینے یا سال فرمایا؟
حكم دارالسلام: حديث صحيح على قلب فى إسناده، روى ابن عيينة هذا الحديث مقلوباً عن أبى النضر، عن بسر بن سعيد، جعل فى موضع زيد ابن خالد أبا جهيم، وفي موضع أبى جهيم زيد بن خالد
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور بازار آتے، اس وقت اگر ہم میں سے کوئی شخص تیر پھینکتا تو وہ تیر گرنے کی جکہ کو بھی دیکھ سکتا تھا۔
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح کرے، پھر دو رکعتیں اس طرح پڑھے کہ اس میں غفلت نہ کرے، تو اللّٰہ اس کے پچھلے سارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف هشام بن سعد
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی بھٹکے ہوئے جانور کو پکڑ لے، وہ گمراہ ہے جب تک کہ اس کی تشہیر نہ کرے۔“
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مجاہد کے لئے سامان جہاد مہیا کرے گا یا اس کے پیچھے اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے، تو اس کے لئے مجاہد کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شخص نے اس باندی کے متعلق پوچھا جو شادی شدہ ہونے پہلے بدکاری کا ارتکاب کرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کوڑے مارو اگر دوبارہ کرے تو پھر کوڑے مارو اور اگر چوتھی بار ایسا کرے تو اس کو بیچ دو خواہ ایک رسی کے عوض ہی ہو۔