سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مجاہد کے لئے سامان جہاد مہیا کرے گا یا اس کے پیچھے اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے گا تو اس کے لئے مجاہد کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا۔“
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں تمہیں بہترین گواہوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ جو (حق پر) گواہی کی درخواست سے پہلے گواہی دینے کے لئے تیار ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1719، وهذا إسناد اختلف فيه على مالك
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتا اور بازار آتا، اس وقت اگر میں تیر پھینکتا تو تیر گرنے کی جگہ بھی دیکھ سکتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، صالح مولى التوأمة مختلط ، ورواية سفيان الثوري عنه بعد اختلاطه، لكنه توبع
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله ، انه سمع ابا هريرة ، وزيد بن خالد الجهني ، وشبلا ، قال سفيان: قال بعض الناس: ابن معبد، والذي حفظت شبلا، قالوا: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام رجل، فقال: انشدك الله إلا قضيت بيننا بكتاب الله، فقام خصمه وكان افقه منه، فقال: صدق، اقض بيننا بكتاب الله عز وجل، واذن لي فاتكلم، قال:" قل"، قال: إن ابني كان عسيفا، على هذا، وإنه زنى بامراته، فافتديت منه بمئة شاة، وخادم، ثم سالت رجالا من اهل العلم، فاخبروني، ان على ابني، جلد مئة، وتغريب عام، وعلى امراة هذا الرجم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله عز وجل، المئة شاة والخادم رد عليك، وعلى ابنك جلد مئة، وتغريب عام، واغد يا انيس رجل من اسلم على امراة هذا، فإن اعترفت فارجمها"، فغدا عليها، فاعترفت، فرجمها .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ ، وَشَبْلًا ، قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ بَعْضُ النَّاسِ: ابْنَ مَعْبَدٍ، وَالَّذِي حَفِظْتُ شِبْلًا، قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: صَدَقَ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأْذَنْ لِي فَأَتَكَلَّمَ، قَالَ:" قُلْ"، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا، عَلَى هَذَا، وَإِنَّهُ زَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِئَةِ شَاةٍ، وَخَادِمٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي، أَنَّ عَلَى ابْنِي، جَلْدَ مِئَةٍ، وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَعَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، الْمِئَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِئَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"، فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہ اور شبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کیجئے، اس کا فریق مخالف کھڑا ہوا،، جو اس سے زیادہ سمجھدار تھا، اور کہنے لگا یہ صحیح کہتا ہے ہمارے درمیان کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کر دیجئے اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیجئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو، وہ اور کہنے لگا کہ میرا بیٹا اس شخص کے یہاں مزدور تھا اس نے اس کی بیوی سے بدکاری کی، لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا، میں نے اس کے فدیے میں ایک لونڈی اور سو بکریاں پیش کر دیں، پھر مجھے اہل علم نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں، ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اس شخص کی بیوی کو رجم کیا جائے (اب آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کر دیجئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، بکریاں اور لونڈی تمہیں واپس دے دی جائیں گی تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی ”انیس“ سے فرمایا: ”انیس اٹھو اور اس شخص کی بیوی سے جا کر پوچھو، اگر وہ اعتراف جرم کر لے تو اسے رجم کر دو“ چنانچہ وہ اس کے پاس پہنچے تو اس نے اعتراف جرم کر لیا اور انہوں نے اسے رجم کر دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2314، م: 1697 على وهم فى إسناده
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، زید بن خالد رضی اللہ عنہ اور شبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باندی کے متعلق پوچھا، جو شادی شدہ ہونے سے پہلے بدکاری کا ارتکا ب کرے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کوڑے مارو، اگر دوبارہ کرے تو پھر کوڑے مارو، اگر چوتھی مرتبہ پھر ایسا کرے تو اسے بیچ دو خواہ ایک رسی کے عوض ہی ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2555، م: 1704 على وهم فى إسناده، وهم سفيان بن عيينة ، وأن شبلاً ليست له صحبة
حدثنا إسحاق بن يوسف ، اخبرنا عبد الملك ، عن عطاء ، عن زيد بن خالد الجهني ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تتخذوا بيوتكم قبورا صلوا فيها . ومن فطر صائما، كتب له مثل اجر الصائم لا ينقص من اجر الصائم شيء . ومن جهز غازيا في سبيل الله، او خلفه في اهله، كتب له مثل اجر الغازي في انه لا ينقص من اجر الغازي شيء" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَتَّخِذُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا صَلُّوا فِيهَا . وَمَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْءٌ . وَمَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الْغَازِي فِي أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الْغَازِي شَيْءٌ" .
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنایا کرو، بلکہ ان میں نماز پڑھا کرو اور جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا اور روزہ دار کے ثواب میں ذرا سی کمی بھی نہیں کی جائے گی، اور جو شخص کسی مجاہد کے لیے سامان جہاد مہیا کرے یا اس کے پیچھے اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے تو اس کے لیے مجاہد کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا اور مجاہد کے ثواب میں ذرا سی کمی بھی نہیں کی جائے گی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «من فطر صائما» ، فحسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عطاء لم يسمع من زيد بن خالد
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مجاہد کے لیے سامان جہاد مہیا کرے یا اس کے پیچھے اس کے اہل خانہ کی حفاظت کرے اس کے لیے مجاہد کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا۔“
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر مجھے گری پڑی کسی تھیلی میں چاندی مل جائے تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ظرف، اس کا بندھن اور اس کی تعداد اچھی طرح محفوظ کر کے ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس دوران اس کا مالک آ جائے تو اس کے حوالے کر دو، ورنہ وہ تمہاری ہو گئی۔
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں تمہیں بہترین گواہوں کے بارے نہ بتاؤں؟ وہ جو (حق پر) گواہی کی درخواست سے پہلے گواہی دینے کے لئے تیار ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، فبين عبدالله بن عمرو و زيد بن خالد عبدالرحمن بن أبى عمرة
سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، اسی وجہ سے سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ مسواک کو اسی طرح اپنے کان پر رکھتے تھے جیسے کاتب قلم رکھتا ہے اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث له إسنادان، أحدهما صحيح، وفي الثاني: محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن، وفيه زيادة قول أبى سلمة: «فكان زيد بن خالد . . . . . . » وهى زيادة ضعيفة، تفرد بها ابن إسحاق