كتاب تقصير الصلاة فى السفر کتاب: سفر میں قصر نماز کے احکام و مسائل 1. بَابُ: باب:
یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ: «ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» ”تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے“ (النساء: ۱۰۱)، کے متعلق عرض کیا کہ اب تو لوگ مامون اور بےخوف ہو گئے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا جس سے تم کو تعجب ہے، تو میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایک صدقہ ہے ۱؎ جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اس کے صدقہ کو قبول کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 1 (686)، سنن ابی داود/الصلاة 270 (1199، 1200)، سنن الترمذی/تفسیر النساء 5 (3034)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 73 (1065)، (تحفة الأشراف: 10659)، مسند احمد 1/25، 36، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1546) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے اللہ تعالیٰ نے تمہاری کمزوری اور درماندگی کو دیکھتے ہوئے تمہاری پریشانی اور مشقت کے ازالہ کے لیے بطور رحمت تمہارے لیے مشروع کیا ہے، لہٰذا آیت میں «إن خفتم» (اگر تمہیں ڈر ہو) کی جو قید ہے وہ اتفاقی ہے احترازی نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے کہا کہ ہم قرآن میں حضر کی صلاۃ ۱؎ اور خوف کی صلاۃ کے احکام ۲؎ تو پاتے ہیں، مگر سفر کی صلاۃ کو قرآن میں نہیں پاتے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: بھتیجے! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں بھیجا، اور ہم اس وقت کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 458 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قرآن کے سلسلہ میں جو مطلق اوامر وارد ہیں ان کا محمل یہی حضر کی صلاۃ ہے۔ ۲؎: خوف کی صلاۃ کا ذکر آیت کریمہ: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا» (النساء: 101) میں ہے۔ ۳؎: اور آپ نے بغیر خوف کے بھی قصر کیا ہے، لہٰذا یہ ایسی دلیل ہے جس سے اسی طرح حکم ثابت ہوتا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لیے نکلے، آپ صرف رب العالمین سے ہی ڈر رہے تھے ۱؎ (اس کے باوجود) آپ (راستہ بھر) دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 274 (الجمعة 39) (547)، (تحفة الأشراف: 6436)، مسند احمد 1/215، 226، 255، 345، 362، 369 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ کسی دشمن کا کوئی خوف نہیں تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کرتے تھے، ہمیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوتا تھا، پھر بھی ہم دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن سمط کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ذوالحلیفہ ۱؎ میں دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے ان سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا: میں تو ویسے ہی کر رہا ہوں جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 1 (692)، (تحفة الأشراف: 10462)، مسند احمد 1/29، 30 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جو مدینہ سے بارہ کیلو میٹر کی دوری پرہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلا تو آپ برابر قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ نے وہاں دس دن تک قیام کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة 1 (1081)، المغازي 52 (4297) مختصراً، صحیح مسلم/المسافرین 1 (693)، سنن ابی داود/الصلاة 279 (1233)، سنن الترمذی/الصلاة 275 (الجمعة 40) (548)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1077)، مسند احمد 3/187، 190، 282، سنن الدارمی/الصلاة 180 (1551)، ویأتی عند المؤلف فی باب 4 (برقم: 1453) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں دو رکعتیں پڑھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9458)، مسند احمد 1/378، 422 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے، عید الاضحی کی نماز دو رکعت ہے، اور سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1421 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ حضر (اقامت) کی نماز تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر چار رکعتیں فرض ہوئیں، اور سفر کی نماز دو رکعت، اور خوف کی نماز ایک رکعت ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 457 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی صراحت ہے، بعض صحابہ کرام اور ائمہ عظام اس کے قائل بھی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضر (اقامت) میں چار رکعتیں، اور سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 457 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|