سنن نسائي
كتاب تقصير الصلاة فى السفر
کتاب: سفر میں قصر نماز کے احکام و مسائل
1. بَابُ :
باب:
حدیث نمبر: 1435
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْآنِ، وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فِي الْقُرْآنِ , فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ:" يَا ابْنَ أَخِي , إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا وَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے کہا کہ ہم قرآن میں حضر کی صلاۃ ۱؎ اور خوف کی صلاۃ کے احکام ۲؎ تو پاتے ہیں، مگر سفر کی صلاۃ کو قرآن میں نہیں پاتے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: بھتیجے! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں بھیجا، اور ہم اس وقت کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 458 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قرآن کے سلسلہ میں جو مطلق اوامر وارد ہیں ان کا محمل یہی حضر کی صلاۃ ہے۔ ۲؎: خوف کی صلاۃ کا ذکر آیت کریمہ: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا» (النساء: 101) میں ہے۔ ۳؎: اور آپ نے بغیر خوف کے بھی قصر کیا ہے، لہٰذا یہ ایسی دلیل ہے جس سے اسی طرح حکم ثابت ہوتا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1435 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1435
1435۔ اردو حاشیہ: قرآن مجید کو بھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تصدیق سے مانتے ہیں، لہٰذا اصل حیثیت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ آپ جو فرمائیں گے، وہ ہمارے لیے حجت ہے، قرآن مجید میں ہو یا نہ ہو۔ قرآن مجید میں تو نماز کا طریقہ بھی ذکر نہیں اور نہ ان کی تعداد وغیرہ ہی کا ذکر ہے۔ جب ان باتوں کو ہم قرآن مجید میں نہ ہونے کے باوجود مانتے ہیں تو قصر سفر کو بھی ماننا چاہیے کیونکہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے۔ قولاً بھی فعلاً بھی۔ مزید تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1435