كتاب الشفعة کتاب: شفعہ کے احکام و مسائل 3. بَابُ: إِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ فَلاَ شُفْعَةَ باب: جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جائیداد میں شفعہ کا حکم دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، لیکن جب تقسیم ہو جائے اور حد بندی ہو تو شفعہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13241، 15249)، مصباح الزجاجة: 884)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 75 (3515) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ ابوعاصم کہتے ہیں: سعید بن مسیب کی روایت مرسل ہے، اور ابوسلمہ کی روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متصل ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13241، 15249، ومصباح الزجاجة: 885)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شریک (ساجھی دار) اپنی قریبی جائیداد کا زیادہ حقدار ہے، خواہ کوئی بھی چیز ہو“۔
تخریج الحدیث: «انظرحدیث رقم: (2495) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 96 (2213)، 97 (2214)، الشفعة 2 (2257)، الحیل 14 (76 69)، الشرکة 8 (95 24)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3514)، سنن الترمذی/الأحکام 33 (1370)، (تحفة الأشراف: 3153)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/البیوع 107 (4708)، موطا امام مالک/الشفعة 1 (1)، مسند احمد (3/372، 399)، سنن الدارمی/البیوع 83 (2670) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ وہ جائیداد جو تقسیم کے قابل نہ ہو، اس میں بھی شفعہ نہیں ہے، جیسے حمام اور کنواں وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|