كِتَاب سُجُودِ الْقُرْآنِ کتاب: سجود قرآن کے مسائل 10. بَابُ مَنْ رَأَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُوجِبِ السُّجُودَ: باب: اس شخص کی دلیل جس کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں کیا۔
اور عمران بن حصین صحابی سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آیت سجدہ سنتا ہے مگر وہ سننے کی نیت سے نہیں بیٹھا تھا تو کیا اس پر سجدہ واجب ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر وہ اس نیت سے بیٹھا بھی ہو تو کیا (گویا انہوں نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں سمجھا) سلمان فارسی نے فرمایا کہ ہم سجدہ تلاوت کے لیے نہیں آئے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سجدہ ان کے لیے ضروری ہے جنہوں نے آیت سجدہ قصد سے سنی ہو۔ زہری نے فرمایا کہ سجدہ کے لیے طہارت ضروری ہے اگر کوئی سفر کی حالت میں نہ ہو بلکہ گھر پر ہو تو سجدہ قبلہ رو ہو کر کیا جائے گا اور سواری پر قبلہ رو ہونا ضروری نہیں جدھر بھی رخ ہو (اسی طرف سجدہ کر لینا چاہیے) سائب بن یزید واعظوں و قصہ خوانوں کے سجدہ کرنے پر سجدہ نہ کرتے۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی اور انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہیں عثمان بن عبدالرحمٰن تیمی نے اور انہیں ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی نے کہا۔۔۔ ابوبکر بن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ربیعہ بہت اچھے لوگوں میں سے تھے ربیعہ نے وہ حال بیان کیا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہوں نے دیکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی جب سجدہ کی آیت ( «ولله يسجد ما في السمٰوٰت» ) آخر تک پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا ہماری خوشی پر رکھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
|