تفرح أبواب السترة ابواب: سترے کے احکام ومسائل 104. باب مَا يَسْتُرُ الْمُصَلِّي باب: نمازی کے سترہ کا بیان۔
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے (اونٹ کے) کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے مثل کوئی چیز اپنے سامنے رکھ لی تو پھر تمہارے سامنے سے کسی کا گزرنا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 47 (499)، سنن الترمذی/الصلاة 138 (335)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 36 (940)، (تحفة الأشراف: 5011) وقد أخرجہ: مسند احمد (1/161، 162) (صحیح)»
وضاحت: نمازی کو بحالت نماز ایسی جگہ کھڑے ہونا چاہیے جہاں اس کے آگے سے کسی کے گزرنے کا احتمال نہ ہو۔ جگہ اگر کھلی ہو تو کوئی مناسب چیز اسے اپنے سامنے رکھ لینی چاہیے جو گزرنے والوں کے لیے آڑ اور اس کے نماز میں ہونے کی علامت ہو۔ اسے اصطلاحاً سترہ کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک تاکیدی سنت ہے۔ نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ تقریباً تین ہاتھ کا ہو، اس سے زیادہ فاصلے پر موجود کوئی چیز یا آڑ مثلاً دیوار یا ستون وغیرہ شرعاً سترہ نہیں کہلاتے، لہذا سترے کے قریب کھڑا ہونا ہی مسنون عمل ہے۔ معلوم ہوا کہ سترہ نہ رکھنے سے نمازی کو نقصان ہوتا ہے۔ یعنی اس کے خشوع خضوع اور اجر میں کمی ہوتی ہے اور یہ سترہ کم از کم فٹ یا ڈیڑھ فٹ کے درمیان کوئی چیز ہونی چاہیے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عطاء (عطاء بن ابی رباح) کہتے ہیں کجاوہ کی پچھلی لکڑی ایک ہاتھ کی یا اس سے کچھ بڑی ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف: 19063) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ مبارک کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 90 (494)، والعیدین 13 (972)، 14 (973)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (501)، تحفةالأشراف (7940)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/العیدین 9 (1566)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 164 (1305)، مسند احمد (2/98، 142، 145، 151)، سنن الدارمی/ الصلاة 124 (1450) (صحیح)»
وضاحت: یعنی امراء و حکام لوگ جو عید وغیرہ کے موقع پر بھالا نیزہ وغیرہ لے کر نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کی اصل یہی ہے۔ نماز فرض ہو یا نفل، سفر ہو یا حضر، ہر موقع پر سترے کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھائیں اور آپ کے سامنے برچھی (بطور سترہ) تھی، اور برچھی کے پیچھے سے عورتیں اور گدھے گزرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 40 (187)، والصلاة 17 (376)، 93 (495)، 94 (499)، والمناقب 23 (3553)، واللباس 3 (5786)، 42 (5859)، (تحفة الأشراف: 11810)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 47 (250)، سنن الترمذی/الصلاة 32 (197)، سنن النسائی/الطھارة 103 (137)، والأذان 13 (644)، والزینة 123 (3580)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (711)، مسند احمد (4/308)، سنن الدارمی/الصلاة 8 (1235)، 124 (1449) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|