ایاس بن سلمہ نے ہمیں اپنے والد حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے، (راستے میں) تنگی (زاد راہ کی کمی) کا شکار ہو گئے حتی کہ ہم نے ارادہ کر لیا کہ اپنی بعض سواریاں ذبح کر لیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ہم نے اپنا زادراہ اکٹھا کر لیا۔ ہم نے اس کے لیے چمڑے کا دسترخوان بچھایا تو سب لوگوں کا زادراہ اس دسترخوان پر اکٹھا ہو گیا۔ کہا: میں نے نگاہ اٹھائی کہ اندازہ کر سکوں کہ وہ کتنا ہے؟ تو میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک بکری کے بیٹھنے کی جگہ کے بقدر تھا اور ہم چودہ سو آدمی تھے۔ کہا: تو ہم نے کھایا حتی کہ ہم سب سیر ہو گئے، پھر ہم نے اپنے (خوراک کے) تھیلے (بھی) بھر لیے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا وضو کے لیے پانی ہے؟" کہا: تو ایک آدمی اپنا ایک برتن لایا۔ اس میں تھوڑا سا پانی تھا، اس نے وہ ایک کھلے منہ والے پیالے میں انڈیلا تو ہم سب نے وضو کیا، ہم چودہ سو آدمی اسے کھلا استعمال کر رہے تھے۔ کہا: پھر اس کے بعد آٹھ افراد (اور) آئے، انہوں نے کہا: کیا وضو کے لیے پانی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وضو کاپانی ختم ہو چکا
ایاس بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم تنگی اور مشقت سے دوچار ہو گئے، جس کی وجہ سے ہم نے اپنی بعض سواریوں کو نحر کرنے کا ارادہ کر لیا تو ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنے توشے دان جمع کر لیے اور اس کے لیے چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا اور لوگوں کا زادراہ چمڑے کا دسترخوان پر جمع ہو گیا، حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں اوپر اٹھا تاکہ اس کی مقدار کا اندازہ لگاؤں تو میرے اندازے کے مطابق وہ ایک بکری کے بیٹھنے کی جگہ کے برابر تھا اور ہم چودہ سو افراد تھے، ہم سب نے اس سے سیر ہو کر کھایا، پھر ہم نے اپنی تھیلیاں بھر لیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”کیا کچھ پانی ہے؟“ تو ایک آدمی اپنا لوٹا لایا، اس میں تھوڑا سا پانی تھا اور اسے ایک پیالہ میں ڈال دیا تو ہم سب نے اس سے وضو کیا اور ہم اسے خوب استعمال کر رہے تھے چودہ سو آدمی اس کے بعد آٹھ آدمی آئے اور کہنے لگے کیا وضو کے لیے پانی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کا پانی ختم ہو چکا ہے۔“