حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثني الجريري، قال: حدثنا ابو العلاء بن عبد الله، عن نعيم بن قعنب، قال: اتيت ابا ذر، فلم اوافقه، فقلت لامراته: اين ابو ذر؟ قالت: يمتهن، سياتيك الآن، فجلست له، فجاء ومعه بعيران، قد قطر احدهما بعجز الآخر، في عنق كل واحد منهما قربة، فوضعهما ثم جاء، فقلت: يا ابا ذر، ما من رجل كنت القاه كان احب إلي لقيا منك، ولا ابغض إلي لقيا منك، قال: لله ابوك، وما جمع هذا؟ قال: إني كنت وادت موءدة في الجاهلية ارهب إن لقيتك، ان تقول: لا توبة لك، لا مخرج لك، وكنت ارجو ان تقول: لك توبة ومخرج، قال: افي الجاهلية اصبت؟ قلت: نعم، قال: عفا الله عما سلف، وقال لامراته: آتينا بطعام، فابت، ثم امرها فابت، حتى ارتفعت اصواتهما، قال: إيه، فإنكن لا تعدون ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: وما قال رسول الله فيهن؟ قال: ”إن المراة خلقت من ضلع، وإنك إن ترد ان تقيمها تكسرها، وإن تداريها فإن فيها اودا وبلغة“، فولت، فجاءت بثريدة كانها قطاة، فقال: كل ولا اهولنك فإني صائم، ثم قام يصلي، فجعل يهذب الركوع، ثم انفتل فاكل، فقلت: إنا لله، ما كنت اخاف ان تكذبني، قال: لله ابوك، ما كذبت منذ لقيتني، قلت: الم تخبرني انك صائم؟ قال: بلى، إني صمت من هذا الشهر ثلاثة ايام فكتب لي اجره، وحل لي الطعام.حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلاءِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ، فَلَمْ أُوَافِقْهُ، فَقُلْتُ لامْرَأَتِهِ: أَيْنَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَتْ: يَمْتَهِنُ، سَيَأْتِيكَ الآنَ، فَجَلَسْتُ لَهُ، فَجَاءَ وَمَعَهُ بَعِيرَانِ، قَدْ قَطَرَ أَحَدَهُمَا بِعَجُزِ الآخَرِ، فِي عُنُقِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قِرْبَةٌ، فَوَضَعَهُمَا ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا مِنْ رَجُلٍ كُنْتُ أَلْقَاهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ لُقْيًا مِنْكَ، وَلا أَبْغَضَ إِلَيَّ لُقْيًا مِنْكَ، قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، وَمَا جَمَعَ هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي كُنْت وَأَدْتُ مَوْءُدَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَرْهَبُ إِنْ لَقِيتُكَ، أَنْ تَقُولَ: لا تَوْبَةَ لَكَ، لا مَخْرَجَ لَكَ، وَكُنْتُ أَرْجُو أَنْ تَقُولَ: لَكَ تَوْبَةٌ وَمَخْرَجٌ، قَالَ: أَفِي الْجَاهِلِيَّةِ أَصَبْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ، وَقَالَ لامْرَأَتِهِ: آتِينَا بِطَعَامٍ، فَأَبَتَ، ثُمَّ أَمَرَهَا فَأَبَتَ، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، قَالَ: إِيهِ، فَإِنَّكُنّ لا تَعْدُونَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ فِيهِنَّ؟ قَالَ: ”إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّكَ إِنْ تُرِدْ أَنْ تُقِيمَهَا تَكْسِرُهَا، وَإِنْ تُدَارِيْهَا فَإِنَّ فِيهَا أَوَدًا وَبُلْغَةً“، فَوَلَّتْ، فَجَاءَتْ بِثَرِيدَةٍ كَأَنَّهَا قَطَاةٌ، فَقَالَ: كُلْ وَلا أَهُولَنَّكَ فَإِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَجَعَلَ يُهَذِّبُ الرُّكُوعَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَأَكَلَ، فَقُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ، مَا كُنْتُ أَخَافُ أَنْ تَكْذِبَنِي، قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، مَا كَذَبْتُ مُنْذُ لَقِيتَنِي، قُلْتُ: أَلَمْ تُخْبِرْنِي أَنَّكَ صَائِمٌ؟ قَالَ: بَلَى، إِنِّي صُمْتُ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فَكُتِبَ لِي أَجْرُهُ، وَحَلَّ لِيَ الطَّعَامُ.
نعیم بن قعنب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا لیکن وہ گھر پر نہ ملے۔ میں نے ان کی بیوی سے پوچھا: ابوذر کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ گھر کے کام کاج میں مشغول ہیں، ابھی آپ کے پاس آتے ہیں۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا، چنانچہ وہ آئے تو ان کے پاس دو اونٹ تھے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے کے پیچھے باندھا ہوا تھا اور ان میں سے ہر ایک کی گردن میں مشکیزہ تھا۔ انہوں نے وہ مشکیزے اتارے، پھر تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابوذر! کوئی آدمی مجھے آپ سے زیادہ محبوب نہیں جس سے میں ملاقات کروں، اور کوئی آدمی مجھے آپ سے زیادہ مبغوض نہیں جس سے میں ملاقات کروں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ تیرا بھلا کرے، یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟ وہ کہتے ہیں (میں نے کہا): میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بچی کو زندہ درگور کیا تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ آپ سے ملوں گا تو آپ فرما دیں گے کہ تیری توبہ قبول نہیں۔ اور گناہ سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اور مجھے یہ بھی امید تھی کہ آپ کہیں گے کہ تمہاری توبہ قبول ہے اور گناہ سے نکلنے کا راستہ بھی ہے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے زمانۂ جاہلیت میں یہ گناہ کیا تھا؟ میں نے کہا: ہاں! انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے پہلے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ پھر اپنی بیوی سے فرمایا: ہمارے لیے کھانا لاؤ تو اس نے انکار کر دیا۔ پھر حکم دیا تو اس نے پھر انکار کر دیا یہاں تک کہ تکرار میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس تم اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کا ارادہ کرو گے تو توڑ بیٹھو گے۔ اور اگر تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ اس سے روا داری کرے گا تو اس طرح گزارہ ہوسکتا ہے۔“ پھر وہ خاتون چلی گئی اور (جلدی سے) ثرید لے آئی، گویا وہ (تیزی میں) کبوتری ہو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کھاؤ اور میرا شامل نہ ہونا تجھے پریشان نہ کرے کیونکہ میں روزے سے ہوں۔ پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے اور جلدی جلدی رکوع کیے۔ پھر نماز ختم کر کے میرے ساتھ کھانے میں شامل ہو گئے۔ میں نے کہا: انا لله وانا الیہ راجعون۔ مجھے آپ سے توقع نہیں تھی کہ آپ مجھ سے جھوٹ بولیں گے۔ انہوں نے فرمایا: الله تیرا بھلا کرے، میری جب سے تم سے ملاقات ہوئی ہے، میں نے تم سے جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ آپ روزے سے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے اس مہینے میں تین دن کے روزے رکھے ہیں اور میرے لیے اس کا اجر لکھ دیا گیا اور میرے لیے کھانا حلال ہوگیا۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 21339 و عبدالرزاق: 7878 و الطبري فى تهذيب الآثار: 340/1 - انظر تخريج الترغيب: 73/3»