تقدیر کے بیان میں مقادیر کے سبقت لے جانے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ((ونفس و ما سواھا ....)) کی تفسیر کے بیان میں۔
ابی الاسود دئلی کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو کیا سمجھتا ہے کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اور مشقت اٹھا رہے ہیں، آیا وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی اگلی تقدیر کی رو سے یا آگے ہونے والی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے اور حجت سے؟ میں نے کہا کہ وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی۔ عمران نے کہا کہ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ (اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کی تقدیر میں جہنمی ہونا لکھ دیا تو پھر وہ اس کے خلاف کیونکر عمل کر سکتا ہے) یہ سن کر میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ یہ ظلم اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہر ایک چیز اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کی ملک ہے، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا اور ان (لوگوں) سے پوچھا جائے گا۔ عمران نے کہا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے، میں نے یہ اس لئے پوچھا کہ تیری عقل کو آزماؤں۔ مزینہ قبیلہ کے دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اٹھا رہے ہیں، آیا فیصلہ ہو چکا اور تقدیر میں وہ بات گزر چکی یا آئندہ ہونے والا ہے اس حکم کی رو سے جس کو پیغمبر لے کر آئے اور ان پر حجت ثابت ہو چکی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”قسم ہے جان کی اور قسم اس کی جس نے اس کو بنایا، پھر اس کو برائی اور بھلائی بتا دی“ (الشمس: 7-8)۔
|