بیماری اور علاج پچھنے لگوانے اور داغنے کے ساتھ علاج کرنا۔
عاصم بن عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر میں آئے اور ایک شخص کو زخم کی تکلیف تھی (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا)۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تجھے کیا تکلیف ہے؟ وہ بولا کہ ایک قرحہ ہو گیا ہے جو کہ مجھ پر نہایت سخت ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے کر آ۔ وہ بولا کہ پچھنے لگانے والے کا کیا کام ہے؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس زخم پر پچھنے لگوانا چاہتا ہوں، وہ بولا کہ اللہ کی قسم مجھے مکھیاں ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور مجھ پر بہت سخت (وقت) گزرے گا۔ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کو پچھنے لگانے سے رنج ہوتا ہے تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر تمہاری دواؤں میں بہتر کوئی دوا ہے تو تین ہی دوائیں ہیں، ایک تو پچھنا، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ اور تیسرے انگارے سے جلانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا۔ راوی نے کہا کہ پھر پچھنے لگانے والا آیا اور اس نے اس کو پچھنے لگائے اور اس کی بیماری جاتی رہی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنے لگوانے کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطیبہ کو ان کے پچھنے لگانے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ ابوطیبہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ لڑکے تھے (جن سے پردہ ضروری نہیں اور ضرورت کے وقت دوا کے لئے اگر عورت یا لڑکا نہ ملے تو اجنبی شخص بھی لگا سکتا ہے)۔
|