زکوٰۃ کے مسائل صدقات کی وصولی پر آل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقرر کرنے کی کراہت۔
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث کہتے ہیں کہ ربیعہ رضی اللہ عنہ بن حارث اور عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب دونوں جمع ہوئے اور کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان دونوں لڑکوں (یعنی مجھے اور فضل بن عباس) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیں، اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو زکوٰۃ پر تحصیلدار بنا دیں۔ اور یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور ان کو کچھ مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے۔ غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی آ کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے تو ان دونوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں مت بھیجو، کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے۔ (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں کو حرام ہے) پس ربیعہ بن حارث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم ہمارے ساتھ حسد سے ایسا کرتے ہو۔ اور اللہ کی قسم کہ تم نے جو شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا ہم تو تم سے کچھ حسد نہیں کرتے۔ تب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان دونوں کو بھیج دو۔ تو ہم دونوں گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ لیٹ رہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا پہنچے اور حجرے کے پاس کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور ملاعبت تھی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور فرمایا کہ ظاہر کرو جو تم دل میں چھپا کر لائے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی، اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم بیان کرو۔ غرض ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور قرابت داروں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں، اور ہم نکاح (کی عمر) کو پہنچ گئے ہیں۔ پھر ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں ان زکوٰتوں پر عامل بنا دیں کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہمیں بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے۔ (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں، اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰۃ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے۔ (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے) تم میرے پاس محمیہ رضی اللہ عنہ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی کا نام تھا) جو خمس پر مقرر تھے اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی۔ اور نوفل بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے، جو راوی حدیث ہیں) بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی میرے نکاح میں دے دی۔ اور محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کا مہر خمس سے اتنا اتنا ادا کر دو۔ زہری نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ عبداللہ بن عبداللہ نے مہر کی تعداد بیان نہیں کی۔
|