تفسیر قرآن۔ تفسیر سورۃ المنافقون तफ़्सीर क़ुरआन “ तफ़्सीर सूरह अल-मुनाफ़िक़ून ” اللہ تعالیٰ کے قول ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ منافقین آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ”(سورۃ المنافقون: 1) کے بیان میں۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہی سے ایک دوسری روایت ہے، کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تاکہ ان کے لئے استغفار کریں (کیونکہ انھوں نے جھوٹی قسم کھائی تھی) وہ نہ آئے اور اپنے سر پھیر لیے۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایک غزوہ میں تھا کہ میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو اپنے کانوں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو خرچ و خیرات وغیرہ نہ دو یہاں تک کہ وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں اور اگر ہم اس لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا ذلیل کو نکال دے گا (یعنی ہم انھیں نکل دیں گے) میں نے یہ بات اپنے چچا یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا، میں نے جو بات تھی کہہ دی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوا بھیجا (ان سے پوچھا کہ تو) انھوں نے حلف اٹھا لیا کہ ہم نے ایسا نہیں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا کہا اور اس کی تصدیق کی۔ مجھے ایسا رنج ہوا کہ کبھی نہ ہوا تھا، میں اپنے گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا نے پوچھا کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جھوٹا کہا اور تجھ پر غصہ ہوئے؟ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت ”جب آپ کے پاس یہ منافق آتے ہیں“ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا بھیجا پھر پوری آیت سنائی اور فرمایا: ”اے زید! بیشک اللہ نے تجھے سچا کیا۔“
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا (آپ یہ دعا مانگتے تھے) اے اللہ! انصار کو اور انصار کے بیٹوں کو معاف فرما دے۔“ راوی کو شک ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اے اللہ! انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کو بھی معاف فرما دے“
|