تفسیر قرآن۔ تفسیر سورۃ آل عمران तफ़्सीर क़ुरआन “ तफ़्सीर सूरह आल-इमरान ” اللہ تعالیٰ کے قول ”وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں ....“ (سورۃ آل عمران: 188) کے بیان میں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چند منافق تھے جو بظاہر مسلمان ہو گئے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کو جاتے تو وہ (مدینہ میں) پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ نہ جانے پر خوش ہوتے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے لوٹ کر آتے تو وہ (طرح طرح) کے بہانے بناتے اور قسمیں کھاتے (کہ ان وجوہات کی وجہ سے ہم نہ جا سکے) اور ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انھوں نے نہ کیا ہوتا۔ پس یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی کہ ”وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انھوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں ....۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا ہر شخص ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں خوش ہے اور یہ بات بھی پسند کرتا ہے کہ جو کام اس نے نہیں کیا اس پر اس کی تعریف کی جائے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو آخرت میں عذاب ہو گا، اگر یہ بات ہے تو ہم سب ضرور عذاب دیئے جائیں گے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ تمہیں اس قصہ سے کیا مطلب؟ بیشک یہ اس وقت نازل ہوئی جب ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند یہودیوں کو بلایا اور ان سے دین کی کوئی بات دریافت فرمائی۔ انھوں نے اصلی بات کو چھپایا اور کوئی غلط بات بتا دی، پھر یہ سمجھے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تعریف کے لائق ٹھہریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات پوچھی ہم نے بتا دی اور اس (مکر اور اصلی بات کو چھپانے) سے بہت خوش ہوئے۔
|