صلح کا بیان सुल्ह यानि मेलमिलाप के बारे में (صلح نامہ) کیوں کر لکھا جائے (کیا اس طرح لکھے) کہ ”یہ وہ صلح نامہ ہے جس میں فلاں بن فلاں نے صلح کی“ اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں“۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے اس بات کو نہ مانا کہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے دیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بات پر فیصلہ کر لیا کہ تین دن مکہ میں قیام کریں پھر جب ان لوگوں نے تحریر لکھی تو یہ لکھوایا کہ ”یہ صلح نامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) راضی ہوئے۔“ تو مشرکوں نے کہا کہ ہم اس بات کا اقرار نہیں کرتے کیونکہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں تو ہم آپ کو (عمرے سے ہرگز) نہ روکتے بلکہ (ہم یہ جانتے ہیں کہ) آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔“ اس کے بعد آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم رسول اللہ (کے لفظ) کو مٹا دو۔ تو انھوں نے عرض کی کہ نہیں اللہ کی قسم! میں آپ (کے نام) کو ہرگز نہ مٹاؤں گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر خود لے لی اور لکھ (لکھوا) دیا کہ ”یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فیصلہ کیا، وہ مکہ میں ہتھیار غلاف میں رکھ کر داخل ہوں گے اور مکہ والوں میں جو کوئی ان کے ساتھ جانا چاہے گا اس کو ساتھ نہیں لے جائیں گے اور اپنے ساتھ والوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہ جانا چاہے گا تو اس کو منع نہیں کریں گے۔“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ تم اپنے صاحب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہو کہ اب ہمارے پاس سے چلے جائیں کیونکہ (مقررہ) وقت گزر گیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے باہر آ گئے پھر سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ان کے پیچھے اے چچا! اے چچا! کہتی ہوئی دوڑی تو اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے سیدہ فاطمۃالزہراء (رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اور) کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو، میں اس کو اٹھا لایا ہوں پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے باہم اختلاف کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں اس لڑکی کا زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اس کی خالہ کو دلوا دیا اور فرمایا: ”خالہ ماں کی طرح ہے۔“ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔“ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میری صورت اور سیرت (دونوں) کے مشابہ ہو۔“ اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم میرے بھائی ہو اور میرے مولا ہو۔“
|