صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ
کتاب: مساقات کے بیان میں
The Book of Watering
12. بَابُ شُرْبِ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ مِنَ الأَنْهَارِ:
باب: نہروں میں سے آدمی اور جانور سب پانی پی سکتے ہیں۔
(12) Chapter. Drinking water by people and watering animals from the rivers.
حدیث نمبر: 2371
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الخيل لرجل اجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فاما الذي له اجر فرجل ربطها في سبيل الله، فاطال بها في مرج او روضة، فما اصابت في طيلها ذلك من المرج او الروضة كانت له حسنات، ولو انه انقطع طيلها فاستنت شرفا او شرفين كانت آثارها وارواثها حسنات له، ولو انها مرت بنهر فشربت منه، ولم يرد ان يسقي كان ذلك حسنات له فهي لذلك اجر، ورجل ربطها تغنيا وتعففا، ثم لم ينس حق الله في رقابها ولا ظهورها فهي لذلك ستر، ورجل ربطها فخرا ورياء ونواء لاهل الإسلام فهي على ذلك وزر، وسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن الحمر؟ فقال: ما انزل علي فيها شيء إلا هذه الآية الجامعة الفاذة فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَيْلُ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ بِهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٍ، وَلَوْ أَنَّهُ انْقَطَعَ طِيَلُهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ، وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ فَهِيَ لِذَلِكَ أَجْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا، ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لِذَلِكَ سِتْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْحُمُرِ؟ فَقَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں ابوصالح سمان نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گھوڑا ایک شخص کے لیے باعث ثواب ہے، دوسرے کے لیے بچاؤ ہے اور تیسرے کے لیے وبال ہے۔ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب ہے، وہ وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ کے لیے اس کو پالے، وہ اسے کسی ہریالے میدان میں باندھے (راوی نے کہا) یا کسی باغ میں۔ تو جس قدر بھی وہ اس ہریالے میدان میں یا باغ میں چرے گا۔ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ اگر اتفاق سے اس کی رسی ٹوٹ گئی اور گھوڑا ایک یا دو مرتبہ آگے کے پاؤں اٹھا کر کودا تو اس کے آثار قدم اور لید بھی مالک کی نیکیوں میں لکھے جائیں گے اور اگر وہ گھوڑا کسی ندی سے گزرے اور اس کا پانی پئے خواہ مالک نے اسے پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ تو اس نیت سے پالا جانے ولا گھوڑا انہیں وجوہ سے باعث ثواب ہے دوسرا شخص وہ ہے جو لوگوں سے بےنیاز رہنے اور ان کے سامنے دست سوال بڑھانے سے بچنے کے لیے گھوڑا پالے، پھر اس کی گردن اور اس کی پیٹھ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اپنے مالک کے لیے پردہ ہے۔ تیسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور مسلمانوں کی دشمنی میں پالے۔ تو یہ گھوڑا اس کے لیے وبال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی حکم وحی سے معلوم نہیں ہوا۔ سوا اس جامع آیت کے «من يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره» جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Keeping horses may be a source of reward to some (man), a shelter to another (i.e. means of earning one's living), or a burden to a third. He to whom the horse will be a source of reward is the one who keeps it in Allah's Cause (prepare it for holy battles) and ties it by a long rope in a pasture (or a garden). He will get a reward equal to what its long rope allows it to eat in the pasture or the garden, and if that horse breaks its rope and crosses one or two hills, then all its footsteps and its dung will be counted as good deeds for its owner; and if it passes by a river and drinks from it, then that will also be regarded as a good deed for its owner even if he has had no intention of watering it then. Horses are a shelter from poverty to the second person who keeps horses for earning his living so as not to ask others, and at the same time he gives Allah's right (i.e. rak`at) (from the wealth he earns through using them in trading etc.,) and does not overburden them. He who keeps horses just out of pride and for showing off and as a means of harming the Muslims, his horses will be a source of sins to him." When Allah's Apostle was asked about donkeys, he replied, "Nothing particular was revealed to me regarding them except the general unique verse which is applicable to everything: "Whoever does goodness equal to the weight of an atom (or small ant) shall see it (its reward) on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 559


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2372
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثنا مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني رضي الله عنه، قال:" جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله، عن اللقطة؟ فقال: اعرف عفاصها ووكاءها، ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها، قال: فضالة الغنم؟ قال: هي لك او لاخيك او للذئب، قال: فضالة الإبل؟ قال: ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتاكل الشجر حتى يلقاها ربها".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟ قَالَ: هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، ان سے منبعت کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور آپ سے لقطہ (راستے میں کسی کی گم ہوئی چیز جو پا گئی ہو) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تھیلی اور اس کے بندھن کی خوب جانچ کر لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو۔ اس عرصے میں اگر اس کا مالک آ جائے (تو اسے دے دو) ورنہ پھر وہ چیز تمہاری ہے۔ سائل نے پوچھا، اور گمشدہ بکری؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا پھر بھیڑئیے کی ہے۔ سائل نے پوچھا اور گمشدہ اونٹ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ اسے سیراب رکھنے والی چیز ہے اور اس کا گھر ہے، پانی پر بھی وہ جا سکتا ہے اور درخت (کے پتے) بھی کھا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا جائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Zaid bin Khalid: A man came to Allah's Apostle and asked about Al-Luqata (a fallen thing). The Prophet said, "Recognize its container and its tying material and then make a public announcement about it for one year and if its owner shows up, give it to him; otherwise use it as you like." The man said, "What about a lost sheep?" The Prophet said, "It is for you, your brother or the wolf." The man said "What about a lost camel?" The Prophet said, "Why should you take it as it has got its water-container (its stomach) and its hooves and it can reach the places of water and can eat the trees till its owner finds it?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 560


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.