صبر و شکر کا بیان सब्र करना और शुक्र करना ناشکری جہنم لے جانے کا ایک ذریعہ ہے “ शुक्र न करना यानि जहन्नम में जाना ”
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، تو (بہت) لمبا قیام فرمایا یعنی سورة البقرہ کے برابر، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بہت) لمبا رکوع کیا، پھر اٹھ کر قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر (دوسری رکعت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ (رکوع سے) اٹھے تو لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر سلام پھیرا اور سورج روشن ہو چکا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کے مرنے یا جینے سے گرہن نہں لگتا، لہٰذا اگر تم ایسی حالت پاؤ تو اللہ کا ذکر کرو۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنے اس مقام پر کھڑے ہو کر کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت دیکھی یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں سے ایک گچھا لینے کا ارادہ کیا اور اگر میں اس سے لے لیتا تو تم جب تک دنیا باقی ہے، اس سے کھاتے رہتے اور میں نے (جہنم کی) آگ دیکھی تو آج تک اس جیسا خوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے اس میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ان کے کفر کی وجہ سے۔“ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے خاوندوں کے ساتھ کفر یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان (نیکی) کی ناشکری کرتی ہیں، اگر تم کسی کے ساتھ ساری عمر نیکی کرتے رہو پھر وہ تم سے کوئی ایسی چیز دیکھے (جو اسے ناپسند ہے) تو وہ کہہ دیتی ہے میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“
تخریج الحدیث: «171- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 186/1، 187 ح 446، ك 12 ب 1 ح 2) التمهيد 301/3، 302، الاستذكار:416، و أخرجه البخاري (1052) ومسلم (907) من حديث مالك به.»
|