رضاعت کے مسائل रज़ाअत यानि दूध पिलाना رضاعی رشتے حقیقی رشتوں کی طرح ہیں “ दूध पीने वाले रिश्ते सगे रिश्तों की तरह हैं ”
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ میرے رضاعی چچا آئے اور مجھ سے (گھر میں) آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا تاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارا چچا ہے، اسے اجازت دے دیا کرو۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا تھا مرد نے تو دودھ نہیں پلایا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارا چچا ہے تمہارے پاس آ سکتا ہے۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ بات ہم پر پردہ فرض ہونے کے بعد کی ہے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «469- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 601/2، 602 ح 1314، ك 30 ب 2 ح 2) التمهيد 154/22، 155، الاستذكار: 1234، و أخرجه البخاري (5239) من حديث مالك به ورواه مسلم (1445/7) من حديث هشام بن عروة به، من رواية يحيي بن يحيي، وجاء فى الأصل: ”أرسل“!!»
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تھے کہ انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے ایک آدمی کی آواز سنی جو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ آدمی (اندر آنے کی) اجازت مانگ رہا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ وہ فلاں آدمی ہے، حفصہ کا رضاعی چچا ہے“۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! اگر فلاں آدمی، جو کہ ان کا رضاعی چچا تھا، اگر زندہ ہوتا تو کیا میرے پاس (گھر میں) آ سکتا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جو رشتے (حقیقی) اولاد ہونے کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں۔“
تخریج الحدیث: «310- متفق عليه، الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 601/2 ح 1313، ك 30 ب 1 ح 1) التمهيد 211/17، الاستذكار: 1233، و أخرجه البخاري (2646) و مسلم (1444) من حديث مالك به سقط من الأصل والسياق يقتضيه.»
عروہ بن الزبیر رحمه الله سے روایت ہے کہ بدری صحابی ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ نے (اپنے غلام) سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو متبنیٰ بنایا تھا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو متبنیٰ بنایا تھا۔ ابوحذیفہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کرایا جو کہ پہلی ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے اور اپنے زمانے میں قریش کی افضل ترین عورتوں میں سے تھیں، اس لئے کہ وہ انھیں اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حکم نازل فرمایا: انہیں ان کے والدین کے ساتھ پکارو (منسوب کرو) یہ تمھارے رب کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔ اگر تمہیں ان کے والدین معلوم نہیں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی اور موالی (غلام) ہیں۔ [ الاحزاب: 5 ] ہر ایک نے اپنے متبنیٰ کو اس کے (حقیقی) والد کی طرف لوٹا دیا (منسوب کر دیا) اگر اس کا باپ معلوم نہیں تھا تو اسے موالی کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہ بنو عامر بن لوی میں سے تھیں۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم تو سالم کو بیٹا سمجھتے تھے جبکہ میں کام کاج کے لباس میں یا ایک ہی کپڑے میں ہوتی ہوں، ہمارا ایک ہی گھر ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پانچ دفعہ دودھ پلا دو تو وہ اس دودھ کی وجہ سے حرام ہو جائے گا۔“ (رضاعی بیٹا بن جائے گا) وہ اسے رضاعی بیٹا سمجھتی تھیں۔ اس بات کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اختیار کیا۔ وہ مردوں میں سے جسے اپنے پاس آنے کی اجازت دینا چاہتیں تو اپنی بہن ام کلثوم بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور بھانجیوں کو حکم دیتیں کہ اسے (اپنا) دودھ پلا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیویوں نے رضاعت کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی اجازت سے انکار کیا اور کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہمارا خیال ہے کہ سہلہ بنت سہیل کا سالم کو رضاعی بیٹا بنانا صرف ان کے لئے خاص اجازت تھی۔ اللہ کی قسم! کوئی آدمی بھی اس رضاعت کے ذریعے سے ہمارے پاس نہیں آ سکے گا۔ بڑی عمر کے آدمی کی رضاعت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی یہی رائے تھی۔ ابولحسن (الراوی) نے کہا: یہ حدیث عروہ کے اس قول کی وجہ سے مرفوع متصل ہو گئی ہے کہ (اس بات کو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اختیار کیا)۔
تخریج الحدیث: «40- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 605/2، 606 ح 1325، ك 30 ب 2 ح 12) التمهيد 249/8، 250، الاستذكار: 1245، و أخرجه النسائي (86/6 ح 3326) و البيهقي (457/7) من حديث مالك به (مختصرا) ورواه عبدالرزاق 458/9، 459 ح 12886) عن مالك عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة به وانظر التمهيد (250/8) وله شواهد عند مسلم (1453) وغيره.»
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ان (عروہ بن الزبیر) کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ابوالقعیس کے بھائی افلح جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے، انہوں نے پردے کی فرضیت کے بعد میرے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں آنے کی اجازت دے دوں۔
تخریج الحدیث: «39- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 602/2ح 1315۔ ك 30 ب 1 ح 3) التمهيد 235/8، الاستذكار: 1235، و أخرجه البخاري (5103) ومسلم (1445/3) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي.»
|