سورج گرہن والی نماز کا بیان सूर्यग्रहण की नमाज़ سورج گرہن والی نماز کا طریقہ “ ग्रहण के समय की नमाज़ का तरीक़ा ”
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، تو (بہت) لمبا قیام فرمایا یعنی سورة البقرہ کے برابر، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بہت) لمبا رکوع کیا، پھر اٹھ کر قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر (دوسری رکعت میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر آپ نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر آپ (رکوع سے) اٹھے تو لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا پھر سلام پھیرا اور سورج روشن ہو چکا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں کسی کے مرنے یا جینے سے گرہن نہں لگتا، لہٰذا اگر تم ایسی حالت پاؤ تو اللہ کا ذکر کرو۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنے اس مقام پر کھڑے ہو کر کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت دیکھی یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں سے ایک گچھا لینے کا ارادہ کیا اور اگر میں اس سے لے لیتا تو تم جب تک دنیا باقی ہے، اس سے کھاتے رہتے اور میں نے (جہنم کی) آگ دیکھی تو آج تک اس جیسا خوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے اس میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ان کے کفر کی وجہ سے۔“ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے خاوندوں کے ساتھ کفر یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان (نیکی) کی ناشکری کرتی ہیں، اگر تم کسی کے ساتھ ساری عمر نیکی کرتے رہو پھر وہ تم سے کوئی ایسی چیز دیکھے (جو اسے ناپسند ہے) تو وہ کہہ دیتی ہے میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“
تخریج الحدیث: «171- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 186/1، 187 ح 446، ك 12 ب 1 ح 2) التمهيد 301/3، 302، الاستذكار:416، و أخرجه البخاري (1052) ومسلم (907) من حديث مالك به.»
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر کھڑے ہوئے لمبا قیام کیا اور یہ پہلے قیام سے چھوٹا تھا۔ پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدہ کیا پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ جب سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا، لوگوں کو خطبہ دیا۔ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی کی موت یا زندگی کہ وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا۔ اگر تم یہ نشانیاں دیکھو تو اللہ سے دعا مانگو، تکبیر کہو اور صدقہ کرو۔“ پھر فرمایا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت! اگر اللہ کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے تو اس پر اللہ کو سب سے زیادہ غیرت آتی ہے۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت! اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔
تخریج الحدیث: «459- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 186/1 ح 445، ك 12 ب 1 ح 1) التمهيد 115/22، الاستذكار: 414، و أخرجه البخاري (1044) ومسلم (901) من حديث مالك به.»
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سورج گرہن کے وقت آئی تو لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ بھی کھڑی (نماز پڑھ رہی) تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ۔ میں نے کہا: کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے (سر کے) اشارے سے جواب دیا کہ جی ہاں! پھر میں بھی کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی چھا گئی۔ میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”میں نے جو چیز پہلے نہیں دیکھی تھی وہ آج اس مقام پر دیکھ لی ہے حتیٰ کہ میں نے جنت اور جہنم دیکھ لیں اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے، دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب۔“ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سے الفاظ کہے تھے۔ تم میں سے ہر آدمی کو لایا جاتا ہے پھر پوچھا جاتا ہے کہ اس آدمی کے بارے میں تو کیا جانتا ہے؟ مؤمن یا موقن (یقین کرنے والا) کہتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس واضح دلیلیں اور ہدایت لے کر آئے تو ہم نے قبول کیا اور ایمان لائے اور آپ کی اتباع کی۔ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے مؤمن کا لفظ کہا تھا یا موقن کا۔ پھر اسے کہا جاتا ہے: اچھی طرح سو جا، ہم جانتے تھے کہ تو مؤمن ہے۔ رہا منافق یا شکی آدمی تو وہ کہتا ہے: مجھے پتا نہیں میں تو لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنتا تو وہی کہہ دیتا تھا۔ راوی کو یاد نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے منافق کا لفظ کہا: تھا یا شکی کا۔
تخریج الحدیث: «481- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 188/1، 189 ح 448، ك 12 ب 2 ح 4) التمهيد 245/22، 246، الاستذكار: 417، و أخرجه البخاري (184) من حديث مالك به.»
اور اسی سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان سے مانگنے آئی تو کہا: اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے اللہ کی پناہ۔“، پھر ایک صبح آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے، سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر سے پہلے واپس آ کر حجروں کے پاس سے گزرے، پھر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبا قیام کیا، پھر بہت لمبا رکوع کیا، پھر اٹھ کر (دوبارہ) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر (رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا۔ پھر (دوسرا) لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر اٹھ کر لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر (رکوع سے سر) اٹھایا تو سجدہ کیا پھر (نماز سے) فارغ ہوئے تو جو اللہ نے چاہا بیان کیا پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
تخریج الحدیث: «495- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 187/1، 188 ح 447، ك 12 ب 1 ح 3) التمهيد 391/23، الاستذكار: 416، و أخرجه البخاري (1049، 1050) من حديث مالك به.»
|