كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 1. باب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ باب: ایک تہائی مال کی وصیت کے جواز کا بیان۔
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمار پڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے عرض کیا: دو تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”نہیں“، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی کی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎، تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج و غریب چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں، تم جو بھی خرچ کرتے ہو اس پر تم کو ضرور اجر ملتا ہے، یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ”تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضا مندی کی خاطر جو بھی عمل کرو گے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتا جائے گا، شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی“ ۲؎، (پھر آپ نے دعا کی) ”اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا“ لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کرتے تھے، (ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعد بن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائز نہیں ہے، ۴- بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تہائی بھی زیادہ ہے“۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 975 (تحفة الأشراف: 3890) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا ہے، البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2708)
|