سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الحدود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
The Book on Legal Punishments (Al-Hudud)
7. باب مَا جَاءَ فِي تَحْقِيقِ الرَّجْمِ
باب: رجم کے ثبوت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Confirming Stoning
حدیث نمبر: 1431
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق , عن داود بن ابي هند , عن سعيد بن المسيب , عن عمر بن الخطاب , قال: " رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ورجم ابو بكر , ورجمت , ولولا اني اكره ان ازيد في كتاب الله , لكتبته في المصحف , فإني قد خشيت ان تجيء اقوام فلا يجدونه في كتاب الله , فيكفرون به ". قال: وفي الباب , عن علي , قال ابو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح , وروي من غير وجه , عن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ: " رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَجَمَ أَبُو بَكْرٍ , وَرَجَمْتُ , وَلَوْلَا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَزِيدَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , لَكَتَبْتُهُ فِي الْمُصْحَفِ , فَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَجِيءَ أَقْوَامٌ فَلَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَيَكْفُرُونَ بِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ عُمَرَ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو ۱؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم (سے متعلق آیت) نہ پا کر اس کا انکار کر دیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور دوسری سندوں سے بھی عمر رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10451)، وانظر مسند احمد (1/36، 43) وانظر ما یأتي (صحیح) (متابعات کی بنا پر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ”سعید بن مسیب“ اور ”عمر رضی الله عنہ“ کے درمیان انقطاع ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی آیت رجم «الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نكالا من الله ...» کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا۔
۲؎: سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام و فرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر رضی الله عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے، عمر رضی الله عنہ نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا، چنانچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا، افسوس صد افسوس! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح التعليق على ابن ماجة، الإرواء (8 / 4 - 5)
حدیث نمبر: 1432
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب , وإسحاق بن منصور , والحسن بن علي الخلال , وغير واحد , قالوا: حدثنا عبد الرزاق , عن معمر , عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة , عن ابن عباس , عن عمر بن الخطاب , قال: " إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق , وانزل عليه الكتاب , فكان فيما انزل عليه آية " الرجم " , فرجم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ورجمنا بعده , وإني خائف ان يطول بالناس زمان , فيقول قائل: لا نجد الرجم في كتاب الله , فيضلوا بترك فريضة انزلها الله , الا وإن الرجم حق على من زنى , إذا احصن وقامت البينة , او كان حبل او اعتراف ". وفي الباب , عن علي. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وروي من غير وجه , عن عمر رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ , وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ , وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ , فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ " الرَّجْمِ " , فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ , وَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ , فَيَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ , أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى , إِذَا أَحْصَنَ وَقَامَتِ الْبَيِّنَةُ , أَوْ كَانَ حَبَلٌ أَوِ اعْتِرَافٌ ". وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہو جائے گا تو کہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہو جائے، یا زانی خود اعتراف کر لے تو رجم کرنا واجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر رضی الله عنہ سے آئی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحدود 30 (6829)، صحیح مسلم/الحدود 4 (1691)، سنن ابی داود/ الحدود 23 (4418)، سنن ابن ماجہ/الحدود 8 (2553)، (تحفة الأشراف: 10508)، و مسند احمد (1/29، 40، 47، 50، 55)، سنن الدارمی/الحدود 16 (2368) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2553)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.