باب: جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور وہ لعنت کے لائق نہ تھا تو اس پر رحمت ہو گی۔
Chapter: Whomever Is Cursed, Reviled Or Prayed Against By The Prophet (SAW) When He Does Not Deserve That, It Will Be Purification, Reward And Mercy For Him
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان، فكلماه بشيء لا ادري ما هو، فاغضباه فلعنهما وسبهما، فلما خرجا، قلت: يا رسول الله، من اصاب من الخير شيئا ما اصابه هذان، قال: وما ذاك، قالت: قلت: لعنتهما وسببتهما، قال: او ما علمت ما شارطت عليه ربي، قلت: اللهم إنما انا بشر، فاي المسلمين لعنته او سببته فاجعله له زكاة واجرا ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ، فَكَلَّمَاهُ بِشَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَأَغْضَبَاهُ فَلَعَنَهُمَا وَسَبَّهُمَا، فَلَمَّا خَرَجَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَصَابَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا مَا أَصَابَهُ هَذَانِ، قَالَ: وَمَا ذَاكِ، قَالَتْ: قُلْتُ: لَعَنْتَهُمَا وَسَبَبْتَهُمَا، قَالَ: أَوَ مَا عَلِمْتِ مَا شَارَطْتُ عَلَيْهِ رَبِّي، قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ لَعَنْتُهُ أَوْ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْهُ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا باتیں کیں . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور برا کہا: ان کو، جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں۔“ میں نے عرض کیا: اس وجہ سے کہ آپ نے ان پر لعنت کی اور ان کو برا کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے معلوم نہیں میں نے جو شرط کی ہے اپنے پروردگار سے۔ میں نے عرض کیا ہے اے میرے مالک! میں آدمی ہوں تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو برا کہوں اس کو پاک کر اور ثواب دے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ انہوں نے تنہائی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہا: اور ان پر لعنت کی اور ان کو نکا ل دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! میں آدمی ہوں تو جس مسلمان کو میں برا کہوں یا لعنت کروں یا ماروں، تو اس کو پاک کر دے اور اس پر رحمت کر۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! میں تجھ سے عہد لیتا ہوں جس کا تو خلاف نہ کرے گا۔ میں آدمی ہوں، تو جس مومن کو ایذا دوں، گالی دوں یا لعنت کروں یا ماروں تو اس کے لیے رحمت کر اور پاکی اور نزدیکی اپنے ساتھ قیامت کے دن۔“
حدثناه ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، حدثنا ابو الزناد ، بهذا الإسناد نحوه، إلا انه قال: او جلده، قال ابو الزناد: وهي لغة ابي هريرة، وإنما هي جلدته.حَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: أَوْ جَلَدُّهُ، قَالَ أَبُو الزِّنَادِ: وَهِيَ لُغَةُ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَإِنَّمَا هِيَ جَلَدْتُهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےتھے: ”یا اللہ! جس مسلمان بندے کو میں برا کہو ں تو اس کو قریب کر اپنے قیامت کے دن۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےتھے: ”یا اللہ! میں نے تجھ سے عہد لیا ہے تو اس کا خلاف مجھ سے نہ کر ے گا جس مومن کو میں برا کہو ں یا ماروں تو، تو اس کا کفارہ کر دے اس کے گناہو ں کا قیامت کے دن۔
حدثني زهير بن حرب ، وابو معن الرقاشي ، واللفظ لزهير، قالا: حدثنا عمر بن يونس ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا إسحاق بن ابي طلحة ، حدثني انس بن مالك ، قال: " كانت عند ام سليم يتيمة وهي ام انس، فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم اليتيمة، فقال: آنت هيه لقد كبرت لا كبر سنك، فرجعت اليتيمة إلى ام سليم تبكي، فقالت ام سليم: ما لك يا بنية؟ قالت: الجارية دعا علي نبي الله صلى الله عليه وسلم ان لا يكبر سني، فالآن لا يكبر سني ابدا، او قالت: قرني فخرجت ام سليم مستعجلة تلوث خمارها حتى لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ام سليم؟ فقالت: يا نبي الله، ادعوت على يتيمتي، قال: وما ذاك يا ام سليم، قالت: زعمت انك دعوت ان لا يكبر سنها ولا يكبر قرنها، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا ام سليم اما تعلمين ان شرطي على ربي اني اشترطت على ربي، فقلت: إنما انا بشر ارضى كما يرضى البشر، واغضب كما يغضب البشر، فايما احد دعوت عليه من امتي بدعوة ليس لها باهل ان يجعلها له طهورا، وزكاة، وقربة يقربه بها منه يوم القيامة "، وقال ابو معن: يتيمة بالتصغير في المواضع الثلاثة من الحديث.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: " كَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سُلَيْمٍ يَتِيمَةٌ وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةَ، فَقَالَ: آنْتِ هِيَهْ لَقَدْ كَبِرْتِ لَا كَبِرَ سِنُّكِ، فَرَجَعَتِ الْيَتِيمَةُ إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَبْكِي، فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: مَا لَكِ يَا بُنَيَّةُ؟ قَالَتْ: الْجَارِيَةُ دَعَا عَلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنِّي، فَالْآنَ لَا يَكْبَرُ سِنِّي أَبَدًا، أَوْ قَالَتْ: قَرْنِي فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مُسْتَعْجِلَةً تَلُوثُ خِمَارَهَا حَتَّى لَقِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَدَعَوْتَ عَلَى يَتِيمَتِي، قَالَ: وَمَا ذَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، قَالَتْ: زَعَمَتْ أَنَّكَ دَعَوْتَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنُّهَا وَلَا يَكْبَرَ قَرْنُهَا، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ شَرْطِي عَلَى رَبِّي أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضَى كَمَا يَرْضَى الْبَشَرُ، وَأَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِي بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا، وَزَكَاةً، وَقُرْبَةً يُقَرِّبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، وقَالَ أَبُو مَعْنٍ: يُتَيِّمَةٌ بِالتَّصْغِيرِ فِي الْمَوَاضِعِ الثَّلَاثَةِ مِنَ الْحَدِيثِ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی جس کو ام انس کہتےتھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا: ”تو ہے وہ لڑکی، تو بڑی ہو گئی ہے، اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو۔“ وہ لڑکی یہ سن کر ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی روتی ہوئی، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹی تجھے کیا ہوا، وہ بولی: مجھ پر دعا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی یا یوں فرمایا: تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے نکلیں اپنی اوڑھنی اوڑھتی ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہے ام سلیم؟“ وہ بولیں: اے نبی اللہ کے! آپ نے بددعا کی میری یتیم لڑکی کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا بددعا؟“ ام سلیم رضی اللہ عنہا بولیں: وہ کہتی ہے: آپ نے فرمایا: ”اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمر دراز نہ ہو۔“ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا: ”اے ام سلیم! تو نہیں جانتی میں نے شرط کی ہے اپنے پروردگار سے میری شرط یہ ہے کہ میں نے عرض کیا: اے پروردگار! میں ایک آدمی ہوں خوش ہوتا ہوں جیسے آدمی خوش ہوتا ہے اور غصے ہوتا ہوں جیسے آدمی غصے ہوتا ہے تو جس کسی پر میں بددعا کروں اپنی امت میں سے ایسی بددعا جس کے وہ لائق نہیں تو اس کے لیے پاکی کرنا اور طہارت اور قربت اپنی قیامت کے دن۔“
حدثنا محمد بن المثنى العنزي . ح وحدثنا ابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا امية بن خالد ، حدثنا شعبة ، عن ابي حمزة القصاب ، عن ابن عباس ، قال: " كنت العب مع الصبيان، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتواريت خلف باب، قال: فجاء فحطاني حطاة، وقال: اذهب وادع لي معاوية، قال: فجئت، فقلت: هو ياكل، قال، ثم قال لي: اذهب فادع لي معاوية، قال: فجئت، فقلت: هو ياكل، فقال: لا اشبع الله بطنه، قال ابن المثنى: قلت لامية: ما حطاني؟ قال: قفدني قفدة ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ، قَالَ: فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً، وَقَالَ: اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ: فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: هُوَ يَأْكُلُ، قَالَ، ثُمَّ قَالَ لِيَ: اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ: فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: هُوَ يَأْكُلُ، فَقَالَ: لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: قُلْتُ لِأُمَيَّةَ: مَا حَطَأَنِي؟ قَالَ: قَفَدَنِي قَفْدَةً ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں ایک دروازہ کے پیچھےچھپ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے مجھے تھپکا (پیار سے) اور فرمایا: ”جا معاویہ کو بلا لا۔“ میں گیا، پھر لوٹ آیا اور میں نے کہا: وہ کھانا کھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”جا اور معاویہ کو بلا لا۔“ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا: وہ کھاناکھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔“