الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب السَّلَامِ سلامتی اور صحت کا بیان 37. باب قَتْلِ الْحَيَّاتِ وَغَيْرِهَا: باب: سانپوں وغیرہ کو مارنے کا بیان میں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دھاری دار سانپ کے مار ڈالنے کا کیونکہ وہ آنکھ پھوڑ دیتا ہے اور پیٹ والی کا پیٹ گرا دیتا ہے۔
ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے اس میں دم بریدہ سانپ کا بھی ذکر ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مار ڈالو سانپوں کو اور دو دھاری والے سانپ کو اور دم بریدہ کو کیونکہ یہ دونوں پیٹ گرا دیتے ہیں اور آنکھ کی بصارت کھو دیتے ہیں۔“ راوی نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما جس سانپ کو دیکھتے مار ڈالتے۔ ایک بار ابولبابہ بن عبدالمنذر یا زید بن خطاب نے ان کو دیکھا ایک سانپ کا پیچھا کرتے ہوئے تو کہا: منع کیا گیا ہے مارنا گھر کے سانپوں کا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کرتے تھے کتوں کو مار ڈالنے کا اور فرماتے تھے: ”سانپوں کو اور کتوں کو مار ڈالو، دو دھاری سانپ کو اور دم کٹے کو کیونکہ یہ دونوں بینائی کھو دیتے ہیں اور پیٹ والیوں کا پیٹ گرا دیتے ہیں۔“ زہری نے کہا: شاید ان کے زہر میں یہ تاثیر ہو گی۔ سالم نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تو جو سانپ دیکھتا ہوں اس کو فوراً مار ڈالتا ہوں۔ ایک بار میں گھر کے سانپوں میں سے ایک سانپ کا پیچھا کر رہا تھا تو زید بن خطاب یا ابولبابہ میرے سامنے سے گزرے اور میں اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا: ٹھہر اے عبداللہ! میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپوں کے مارنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے گھر کے سانپ مارنے سے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا ایک دروازہ کھولنے کے لیے ان کے گھر میں تاکہ مسجد سے نزدیک ہو جائیں، اتنے میں لڑکوں نے سانپ کی ایک کیچلی پائی، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سانپ کو ڈھونڈو اور مار ڈالو، ابو لبابہ نے کہا: مت مارو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے ان سانپوں کے مارنے کا جو گھر میں ہوں۔
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سب سانپوں کو مار ڈالتے یہاں تک کہ ابو لبابہ بن عبدالمنذر نے حدیث بیان کی ہم سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا گھر کے سانپ مارنے سے، اس دن سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے موقوف کر دیا۔
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ نے سنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے تھے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا سانپوں کے مارنے سے۔
ابولبابہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ان سانپوں کے مارنے سے جو گھروں میں رہتے ہیں۔
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوالبابہ بن عبدالمنذر انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر قبا میں تھا، وہ مدینہ چلے آئے، ایک بار سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان کے سامنے بیٹھے تھے ایک روشن دان کھول رہے تھے، اچانک ایک سانپ نظر آیا۔ گھر کے بڑی عمر والے سانپوں میں سے۔ لوگوں نے اس کو مارنا چاہا۔ سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے مارنے سے ممانعت ہے یعنی گھر کے سانپوں کے اور حکم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ اور دو لکیروں والے کے مارنے کا اور کہا گیا ہے کہ یہ دونوں قسم کے سانپ بینائی کھو دیتے ہیں اور عورتوں کے حمل گرا دیتے ہیں۔
نافع سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن اپنے گرے ہوئے مکان کے پاس تھے وہاں سانپ کی کیچلی دیکھی۔ تو لوگوں سے کہا: اس سانپ کا پیچھا کرو اور اس کو مار ڈالو۔ سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ان سانپوں کے مارنے سے جو گھروں میں رہتے ہیں مگر دم بریدہ اور جس پر دو لکیریں ہوتی ہیں کیونکہ یہ دونوں بینائی اچک لیتے ہیں (جب نظر ملاتے ہیں) اور عورتوں کا پیٹ گرا دیتے ہیں (ڈر کے مارے عورت کا پیٹ گر پڑتا ہے اس کی نظر میں یہ تاثیر ہے)۔
نافع سے روایت ہے، ابولبابہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے، وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مکان کے پاس جو قلعہ تھا وہاں کھڑے ہوئے ایک سانپ کو تاک رہے تھے۔ اخیر تک۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے غار میں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ «وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا» اتری تھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے تازی تازی یہ سورت سن رہے تھے، اتنے میں ایک سانپ نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مار ڈالو اس کو۔“ ہم لپکے اس کے مارنے کو وہ نکل کر چل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس کو بچایا تمہارے ہاتھ سے جیسا کہ تم کو بچایا اس کے شر سے۔“
اعمش سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک احرام باندھے ہوئے شخص کو حکم دیا ایک سانپ کو مارنے کا منیٰ میں۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوالسائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو غلام تھے ہشام بن زہرہ کے وہ گئے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس۔ ابوالسائب نے کہا: میں نے ان کو نماز میں پایا تو میں بیٹھ گیا۔ منتظر تھا نماز پڑھ چکنے کا اتنے میں کچھ حرکت کی آواز آئی ان لکڑیوں میں جو گھر کے کونے میں رکھی تھیں، میں نے ادھر دیکھا تو ایک سانپ تھا، میں دوڑا اس کے مارنے کو، ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک کوٹھڑی مجھے بتائی اور پوچھا یہ کوٹھڑی دیکھتے ہو۔ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: اس میں ایک جوان رہتا تھا ہم لوگوں میں سے جس کی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے خندق کی طرف وہ جوان دوپہر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگتا اور گھر آیا کرتا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہتھیار لے کر جا کیونکہ مجھے ڈر ہے بنی قریظہ کا (جنہوں نے دغا بازی کی تھی اور موقع دیکھ کر مشرکوں کی طرف ہو گئے تھے) اس شخص نے اپنے ہتھیار لیے جب اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنی بیوی کو دیکھا دونوں پٹوں کے بیچ میں دروازے پر کھڑی ہے، اس نے اپنا نیزہ اٹھایا اس کے مارنے کو غیرت سے۔ عورت نے کہا: اپنا نیزہ سنبھال اور اندر جا کر دیکھ تو معلوم ہو گا میں کیوں نکلی ہوں۔ وہ جوان اندر گیا تو ایک بڑا سانپ کنڈلی مارے ہوئے بچھونے پر بیٹھا تھا۔ جوان نے اس پر نیزہ اٹھایا اور اسی نیزہ میں کونچ لیا پھر نکلا اور نیزہ گھر میں گاڑ دیا۔ وہ سانپ اس پر لوٹا بعد اس کے ہم نہیں جانتے سانپ پہلے مرا یا جوان پہلے مرا۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا قصہ بیان کیا اور ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئیے اللہ تعالیٰ اس جوان کو پھر جلا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعا کرو اپنے ساتھی کے لیے بخشش کی۔“ پھر فرمایا: ”مدینہ میں جن رہتے ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین دن تک ان کو خبردار کرو (اسی طرح جیسے اوپر گزرا) اگر تین دن کے بعد بھی نکلیں تو ان کو مار ڈالو وہ شیطان ہیں (یعنی کافر جن ہیں یا شریر سانپ ہیں)۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں یہ ہے کہ تخت کے تلے میں نے حرکت کی آوز پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان گھروں میں عمر والے سانپ ہوتے ہیں جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو تین دن تک ان کو تنگ کرو (یعنی یوں کہو کہ اگر پھر نکلو گے تو تم کو تکلیف پہنچے گی) اگر وہ پھر نہ نکلے تو خیر۔ نہیں تو اس کو مار ڈالو وہ کافر جن ہے اور اس روایت میں یہ زیادہ ہے جاؤ اپنے صاحب کو دفن کر دو۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ میں کئی جن رہتے ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں پھر جو کوئی ان عمر والے سانپوں میں سے کسی سانپ کو دیکھے تو اس کو تین بار جتائے اگر وہ اس پر بھی نکلے تو اس کو مار ڈالے، وہ شیطان ہے۔“
|