الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِمَارَةِ امور حکومت کا بیان 8. باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ: باب: بادشاہ یا حاکم یا امام کی اطاعت واجب ہے اس کام میں جو گناہ نہ ہو اور گناہ میں اطاعت کرنا حرام ہے۔
حجاج بن محمد سے روایت ہے، ابن جریج نے کہا: یہ آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الأَمْرِ مِنْكُمْ» (۴-النساء:۵۹)”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور ان کی جو حاکم ہوں تمہارے“ عبداللہ بن حذافہ کے باب میں اتری جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک فوج کا سردار کر کے بھیجا۔ ابن جریج نے کہا: بیان کیا مجھ سے یہ یعلیٰ بن مسلم نے، انہوں نے سنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جو کوئی اطاعت کرے حاکم کی (جس کو میں نے مقرر کیا) اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ نہیں ہے کہ جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ لیکن اس حدیث میں میرے مقرر کردہ امیر کی بجائے مطلق امیر کی اطاعت کی بات ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر لازم ہے سننا اور اطاعت کرنا (حاکم کی بات کا) تکلیف اور راحت میں، خوشی اور رنج میں اور جس وقت تیرا حق اور کسی کو دیں (یعنی اگرچہ حاکم تمہاری حق تلفی بھی کریں اور جو شخص تم سے کم حق رکھتا ہو اس کو تمہارے اوپر مقدم کریں تب بھی صبر اور اطاعت کرنی چاہیئے اور فساد کرنا اور فتنہ پھیلانا منع ہے۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ اطاعت اسی صورت میں ہے جب حاکم کا حکم خلاف شرع نہ ہو اور اگر شرع کے خلاف ہو تو اطاعت نہ کرے)۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی سننے اور اطاعت کرنے کی اگرچہ ایک غلام ہاتھ پاؤں کٹا حاکم ہو۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ غلام حبشی ہو ہاتھ پاؤں کٹا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
یحییٰ بن حصین سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنی دادی سے وہ حدیث بیان کرتی ہیں انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے حجتہ الوداع میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اگر تمہارے اوپر ایک غلام حاکم کیا جائے جو حکومت کرے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق تو اس کی اطاعت کرو اور اس کا حکم مانو۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اور اس میں یہ ہے کہ وہ حبشی غلام ہو۔
شعبہ سے اسی سند کے ساتھ مروی ہے اس میں ”اعضاء بریدہ حبشی غلام“ ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں حبشی ہاتھ پاؤں کٹے کا لفظ نہیں ہے اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے منیٰ میں سنا یا عرفات میں۔
ام حصین یحییٰ بن حصین کی دادی سے روایت ہے، میں نے حج کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج وداع تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتیں فرمائیں پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا کالا غلام بھی امیر ہو اور وہ اللہ کی کتاب کے موافق تم کو چلانا چاہے تو اس کی اطاعت کرو اور اس کی بات سنو۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان پر سننا اور ماننا واجب ہے (حاکم کی بات کا) خواہ اس کو پسند ہو یا نہ ہو مگر جب حکم کیا جائے گناہ کا تو نہ سننا چاہیئے نہ ماننا چاہیئے۔“
عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح مروی ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر حاکم کیا ایک شخص کو اس نے انگار جلائے اور لوگوں سے کہا اس میں گھس جاؤ۔ بعض نے چاہا اس میں گھس جائیں، اور بعض نے کہا کہ ہم انگار سے بھاگ کر تو مسلمان ہوئے اور کفر چھوڑا جہنم سے ڈر کر اب پھر انگار ہی میں گھسیں، یہ ہم سے نہ ہو گا۔ پھر اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں سے جنہوں نے گھسنے کا قصد کیا تھا: ”اگر تم گھس جاتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے قیامت تک۔“ (کیونکہ یہ خودکشی ہے اور وہ شریعت میں حرام ہے) اور جو لوگ گھسنے پر راضی نہ ہوئے ان کی تعریف کی اور فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو دستور کی بات ہو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو حاکم کیا (نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے معلوم ہوا کہ وہ شخص عبداللہ بن خذافہ نہ تھے) اور حکم کیا لوگوں کو اس کی اطاعت کرنے اور اس کی بات سننے کا، پھر ان لوگوں نے اس کو غصے کیا کسی بات میں، اس نے کہا: لکڑیاں جمع کرو۔ لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں پھر اس نے کہا: انگار جلاؤ۔ انہوں نے انگار جلائے تب وہ شخص بولا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تم کو حکم نہیں دیا ہے میری بات سننے کا اور میری اطاعت کرنے کا۔ اوہ بولے بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم دیا ہے۔ اس نے کہا تو اس انگار میں گھس جاؤ، یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے کہا: ہم تو انگار ہی سے (جہنم کے) بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پھر وہ اسی حال میں رہے یہاں تک کہ اس کا غصہ فرو ہو گیا تھا اور انگار بجھا دیئے گئے۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر انگار میں گھس جاتے تو پھر اس میں سے نہ نکلتے، اطاعت کرنا اسی بات میں لازم ہے جو واجبی ہو۔“ (یعنی شریعت کی رو سے منع نہ ہو۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس نے یہ بات امتحان لینے کے لیے کی تھی یا مذاق سے اور ہر حال میں خلاف شرع بات میں سردار کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے)۔
اعمش سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت ہے۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم نے بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور بات ماننے پر سختی اور راحت میں، خوشی اور ناخوشی میں اور گو ہمارے حق کا خیال نہ رکھا جائے اور اس امر پر کہ ہم جھگڑا نہ کریں گے اس شخص کی سرداری میں جو اس کے لائق ہے، اور ہم سچ بات کہیں گے جہاں ہوں گے، اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
عبادہ بن ولید سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح مروی ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
جنادہ بن امیہ سے روایت ہے، ہم سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ بیمار تھے۔ ہم نے کہا: بیان کرو ہم سے (اللہ تعالیٰ تم کو اچھا کرے)۔ ایسی کوئی حدیث ہے جس سے اللہ فائدے دے دے اور جس کو تم نے سنا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ انہوں نے کہا ہم کو بلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ نے جو عہد لیے ان میں یہ بھی بتایا کہ ہم بیعت کرتے ہیں بات سننے اور اطاعت کرنے پر خوشی اور ناخوشی میں، سختی اور آسانی میں اور ہماری حق تلفیاں ہونے میں اور ہم جھگڑا نہ کریں گے اس شخص کی خلافت میں جو اس کے لائق ہو ”مگر جب کھلا کفر دیکھیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس حجت ہو۔“
|