طلحہ بن مصرف سے روایت ہے، میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی؟ (مال وغیرہ کے لیے) انہوں نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر کیوں فرض ہوئی یا ان کو کیوں وصیت کا حکم ہوا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے کی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نہیں چھوڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینار اور نہ درہم اور نہ بکری اور نہ اونٹ اور نہ وصیت کی (کسی مال کے لیے)۔
اسود بن یزید سے روایت ہے، لوگوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ذکر کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کب وصی بنایا؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تھے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے میری گود میں اور مجھے خبر نہیں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کیا پھر علی رضی اللہ عنہ کو کیونکر وصیت کی۔
حدثنا سعيد بن منصور ، وقتيبة بن سعيد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد واللفظ لسعيد، قالوا: حدثنا سفيان ، عن سليمان الاحول ، عن سعيد بن جبير ، قال: قال ابن عباس : " يوم الخميس وما يوم الخميس، ثم بكى حتى بل دمعه الحصى، فقلت: يا ابن عباس، وما يوم الخميس؟، قال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال: ائتوني اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعدي، فتنازعوا وما ينبغي عند نبي تنازع، وقالوا: ما شانه اهجر استفهموه؟، قال: دعوني، فالذي انا فيه خير اوصيكم بثلاث: اخرجوا المشركين من جزيرة العرب، واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم، قال: وسكت عن الثالثة او قالها فانسيتها "، قال ابو إسحاق إبراهيم، حدثنا الحسن بن بشر، قال: حدثنا سفيان بهذا الحديث.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟، قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي، فَتَنَازَعُوا وَمَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ؟، قَالَ: دَعُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ أُوصِيكُمْ بِثَلَاثٍ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، قَالَ: وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَأُنْسِيتُهَا "، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
سعید بن جبیر سے روایت ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جمعرات کا دن، کیا ہے جمعرات کا دن؟ پھر روئے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں۔ میں نے کہا: اے ابن عباس! جمعرات کے دن سے کیا غرض ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“”میرے پاس لاؤ (دوات اور تختی) میں ایک کتاب لکھ دوں تم کو تاکہ تم گمراہ نہ ہو میرے بعد۔“”یہ سن کر لوگ جھگڑنے لگے اور پیغمبر کے پاس جھگڑا نہیں چاہیے اور کہنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لغو صادر ہو سکتا ہے، پھر سمجھ لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“”ہٹ جاؤ میرے پاس سے میں جس کام میں مصروف ہوں وہ بہتر ہے (اس سے جس میں تم مشغول ہو جھگڑے اور تکرار میں) میں تم کو تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں ایک تو یہ کہ مشرکوں کو نکال دینا جزیرہ عرب سے۔ دوسرے جو سفارتیں آئیں ان کی خاطر اسی طرح کرنا جیسے میں کیا کرتا تھا (تاکہ اور قومیں خوش ہوں اور ان کو اسلام کی طرف رغبت ہو) اور تیسری بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نہیں کہی یا سعید نے کہا: میں بھول گیا۔
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا وكيع ، عن مالك بن مغول ، عن طلحة بن مصرف ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، انه قال: " يوم الخميس وما يوم الخميس، ثم جعل تسيل دموعه حتى رايت على خديه كانها نظام اللؤلؤ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ائتوني بالكتف والدواة او اللوح والدواة، اكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ابدا، فقالوا: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يهجر ".حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ، ثُمَّ جَعَلَ تَسِيلُ دُمُوعُهُ حَتَّى رَأَيْتُ عَلَى خَدَّيْهِ كَأَنَّهَا نِظَامُ اللُّؤْلُؤِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ، أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهْجُرُ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: پنجشنبہ کا دن اور کیا ہے پنجشنبہ کا دن پھر ان کے آنسو بہنے لگے۔ دونوں گالوں پر جیسے موتی کی لڑی۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“”میرے پاس ہڈی اور دوات لاؤ یا تختی اور دوات لاؤ میں ایک کتاب لکھوا دوں کہ تم گمراہ نہ ہو۔“ لوگ کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی شدت میں بے اختیار کچھ کہہ رہے ہیں۔
وحدثني محمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال عبد: اخبرنا، وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عباس ، قال: " لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال، فيهم عمر بن الخطاب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هلم اكتب لكم كتابا لا تضلون بعده، فقال عمر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن حسبنا كتاب الله، فاختلف اهل البيت، فاختصموا، فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده، ومنهم من يقول ما قال عمر، فلما اكثروا اللغو والاختلاف عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قوموا "، قال عبيد الله: فكان ابن عباس، يقول: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبين ان يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّونَ بَعْدَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ، فَاخْتَصَمُوا، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا "، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو اس وقت حجرے کے اندر کئی آدمی تھے ان میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آؤ تم کو میں ایک کتاب لکھ دیتا ہوں تم گمراہ نہ ہو گے اس کے بعد۔“ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے بس کافی ہے ہم کو اللہ کی کتاب۔ اور گھر میں جو لوگ تھے انہوں نے اختلاف کیا کسی نے کہا: دوات وغیرہ لاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب لکھوا دیں گے اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے اور بعض نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق کہا، جب ان کی تکرار زیادہ ہوئی اور اختلاف بہت ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اٹھو جاؤ۔“ عبیداللہ نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے: بڑی مصیبت ہوئی، بڑی مصیبت ہوئی یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے اختلاف اور غل کی وجہ سے کتاب نہ لکھوا سکے۔