عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا، گھر میں کچھ آدمی موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس آؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں، اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔" تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف اور درد کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے، ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس پر گھر کے افراد نے اختلاف کیا اور جھگڑ پڑے، ان میں سے کچھ کہہ رہے تھے: (لکھنے کا سامان) قریب لاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کتاب لکھ دیں تاکہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اور ان میں سے کچھ وہی کہہ رہے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زیادہ شور اور اختلاف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھ جاؤ۔" عبیداللہ نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: یقینا مصیبت تھی بڑی مصیبت جو ان کے اختلاف اور شور کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وہ تحریر لکھنے کے درمیان حائل ہو گئی (کہ آپ کتابت نہ کرا سکے
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آ پہنچا، اور گھر میں بہت سے افراد تھے، جن میں عمر بن خطاب بھی تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ، میں تمہیں ایک تحریر لکھوا دوں، اس کے بعد تم حیران نہیں ہو گے، تو حضرت عمر ؓ کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیمار ہیں (اس لیے آپ کو لکھوانے کی زحمت نہیں دینی چاہیے) اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے (اس کی موجودگی میں ہم سرگرداں اور حیران نہیں ہوں گے) تو گھر والوں میں اختلاف پیدا ہو گیا، وہ آپس میں جھگڑنے لگے، ان میں سے کوئی کہہ رہا تھا، مطلوبہ چیز مہیا کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھوا دیں، جس سے تم بعد میں پریشانی یا غلطی سے بچ سکو گے، اور ان میں سے بعض حضرت عمر کی ہمنوائی کر رہے تھے، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرین کا شور اور اختلاف بڑھ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اٹھ جاؤ۔" عبیداللہ کہتے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ کہتے تھے، مصیبت، مکمل مصیبت، ان کا وہ اختلاف اور شور ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادہ کے درمیان حائل ہوا، کہ آپ انہیں ایک تحریر لکھوا دیں۔