الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 86. باب التَّرْغِيبِ فِي سُكْنَى الْمَدِينَةِ وَالصَّبْرِ عَلَى لأْوَائِهَا: باب: مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرنے کی ترغیب اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرنے کا بیان۔
ابوسعید نے کہا کہ ہم کو مدینہ میں ایک بار محنت اور شامت فاقہ کو پہنچی اور میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں کثیر العیال ہوں اور ہم کو سختی پہنچی ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اپنے عیال کو کسی ارزاں اور سرسبز ملک میں لے جاؤں۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ کو نہ چھوڑو اس لیے کہ ہم ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہ یہاں تک کہ عسفان تک پہنچ گئے اور وہاں کئی شب ٹھہرے، سو لوگوں نے کہا: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ ہم یہاں بے کار ٹھہرے ہوئے ہیں اور ہمارے عیال پیچھے چھٹے ہوئے ہیں اور ہم کو ان کے اوپر اطمینان نہیں (یعنی خوف ہے کہ کوئی دشمن نہ ستائے) اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کہ یہ کیا بات ہے جو مجھ کو پہنچی ہے؟۔“ راوی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا: ”قسم ہے اس اللہ کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں یا فرمایا: قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے البتہ میں نے ارادہ کیا یا فرمایا: اگر چاہو تم۔“ میں نہیں جانتا کہ کیا فرمایا ان دونوں باتوں میں سے۔ فرمایا: ”کہ البتہ حکم کروں میں اپنی اونٹنی کو کہ وہ کسی جائے اور پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ داخل ہوں میں مدینہ میں۔“ اور فرمایا: ”کہ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں نے مدینہ کو حرم ٹھہرایا دو گھاٹیوں یا دو پہاڑوں کے بیچ میں کہ نہ اس میں خون بہایا جائے اور نہ اس میں لڑائی کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے، نہ اس میں کسی درخت کے پتے جھاڑے جائیں مگر صرف چارے کے لیے (کہ اس سے درخت کا چنداں نقصان نہیں ہوتا) (فرمایا) «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» یا اللہ! برکت دے ہمارے شہر میں۔ یا اللہ! برکت دے ہماری چوسیری میں، یا اللہ! برکت دے ہمارے سیر میں، یا اللہ! برکت دے ہمارے شہر میں، یا اللہ برکت کے ساتھ دو برکتیں اور دے۔“ اور فرمایا: ”قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی گھاٹی اور کوئی ناکہ مدینہ کا ایسا نہیں ہے جس پر دو فرشتے نگہبان نہ ہوں جب تک کہ تم وہاں نہ پہنچو گے۔“ (یعنی جب تک وہ نگہبان رہیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوچ کرو۔“ اور ہم نے کوچ کیا اور مدینہ میں آئے سو ہم قسم کھاتے ہیں اس پروردگار کی جس کی ہمیشہ قسم کھایا کرتے ہیں یا کہا: جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ غرض حماد کو اس میں شک ہوا غرض جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے ابھی کجاوے اونٹوں پر سے نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر ڈاکہ ڈالا اور اس سے پہلے ان کی ہمت نہ ہوئی (کہ وہاں آ سکیں یہ تصدیق ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی کہ فرشتے وہاں نگہبان ہیں)۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» کہ ”یا اللہ! برکت دے ہمارے مد میں، اور ہمارے صاع میں، اور ایک برکت پر دو برکتیں اور عنایت فرما۔“
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے حرہ کی راتوں میں (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا ہے اور ظالموں نے مدینہ طیبہ کو لوٹا ہے سن ۶۳ ہجری میں) اور مشورہ کیا ان سے کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور شکایت کی ان سے وہاں کی گرانی نرخ کی اور کثرت عیال کی اور خبر دی ان کو کہ مجھے صبر نہیں آ سکتا مدینہ کی محنت اور بھوک پر، تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ خرابی ہو تیری میں تجھے تھوڑے یہاں رہنے کا حکم کرتا ہوں بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: ”کہ صبر نہیں کرتا ہے کوئی یہاں کی تکلیفوں پر اور پھر مر جاتا ہے مگر اس کا شفیع یا گواہ ہوں قیامت کے دن جب وہ مسلمان ہو۔“
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”میں نے حرم مقرر کیا ہے درمیان دونوں کالے پتھروں کے میدانوں میں مدینہ کے جیسے حرم قرار دیا تھا ابرہیم علیہ السلام نے مکہ کو۔“ یہاں تک کہ ایک ہم میں کا پاتا تھا یا لیتا تھا اپنے ہاتھ میں چڑیا اور اس کو جدا کر دیتا تھا پھر چھوڑ دیتا تھا۔
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک مدینہ کی طرف جھکایا اور فرمایا: کہ ”وہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب ہم مدینہ تشریف لائے تو وہاں وبا تھی اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما بیمار ہوئے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بیماری دیکھی تو دعا کی «اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَمَا حَبَّبْتَ مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِى صَاعِهَا وَمُدِّهَا وَحَوِّلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ» ”یااللہ دوست کر دے ہمارے مدینہ کو جیسے دوست کیا تھا تو نے مکہ کو، یا اس سے بھی زیادہ اور صحت عطا کر اس کے رہنے والوں کو اور برکت دے ہم کو اس کے چوسیری اور سیر میں اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف پھیر دے۔“
مذکورہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو صبر کرے مدینہ کی بھوک پر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا قیامت کے دن۔“
یحنس زبیر کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آزاد باندی آئی اور ان کو سلام کیا اور یہ فتنہ کے دن تھے (یعنی فتنہ حرہ کے دن جس کا ذکر ابھی تھوڑی دیر پہلے گزرا) اور اس نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! (یہ کنیت ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) ہم پر سخت دن ہیں اور میں ارادہ کرتی ہوں مدینہ سے نکلنے کا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ بیٹھ اے نادان! اس لئے کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو صبر کرے گا مدینہ کی بھوک، پیاس اور مشقت پر تو میں اس کا شفیع ہوں گا (یعنی اگر وہ گنہگار ہے) یا گواہ ہوں گا (یعنی اگر وہ نیکوکار ہے) قیامت کے دن۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔
|