الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام 41. باب كَرَاهِيَةِ تَأْخِيرِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِهَا الْمُخْتَارِ وَمَا يَفْعَلُهُ الْمَأْمُومُ إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ: باب: عمدہ وقت سے نماز کی تاخیر مکروہ ہے اور جب امام ایسا کریں تو لوگ کیا کریں۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے امیر ہوں گے کہ نماز آخر وقت ادا کریں گے“ یا فرمایا: «نماز کو مار ڈالیں گے اس کے وقت سے۔» میں نے عرض کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو کیا حکم فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے وقت پر ادا کر لینا۔ پھر اگر ان کے ساتھ بھی اتفاق ہو تو پھر پڑھ لینا کہ وہ تمہارے لئے نفل ہو جائیں گے۔“ اور خلف جو راوی ہے اس نے «عَنْ وَقْتِهَا» کا لفظ روایت نہیں کیا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! میرے بعد ایسے حاکم ہوں گے کہ وہ نماز کو مارڈالیں گے (یعنی آخر وقت پڑھیں گے) تو تم اپنی نماز اپنے وقت پر پڑھ لیا کرنا۔ پھر اگر انہوں نے وقت پر پڑھی تو خیر، نہیں تو وہ نماز جو ان کے ساتھ تم نے پڑھی وہ نفل ہو گئی اور نہیں تو تم نے اپنی نماز کو بچا لیا۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے دوست (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں حاکم کی بات سنوں اور اس کا کہا مانوں اگرچہ ایک ہاتھ پیر کٹا ہوا غلام ہو اور یہ کہ میں اپنے وقت پر نماز پڑھوں پھر اگر لوگوں کو پاؤ کہ وہ نماز پڑھ چکے تو تو نے اپنی نماز پہلے ہی محفوظ کر لی اور نہیں تو وہ تیرے لئے نفل ہو گئی (یعنی جو دوبارہ ان کے ساتھ پڑھی)۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا: ”کیا کرے گا جب ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز میں دیر کریں گے اس کے وقت سے؟“ تو انہوں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے وقت پر نماز ادا کر لینا اور اپنے کام کو چلے جانا پھر اگر تکبیر ہو اور تم مسجد میں ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو۔“
ابوالعالیہ نے کہا کہ ابن زیاد نے ایک دن دیر کی اور سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور میں نے ان کے لئے کرسی ڈال دی، وہ اس پر بیٹھے اور میں نے ان سے ابن زیاد کے کام کا ذکر کیا تو انہوں نے ہونٹ چبائے (یعنی افسوس اور غصہ سے) اور میری ران پر ہاتھ مارا اور کہا کہ میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا جیسے تم نے پوچھا۔ سو انہوں نے میری ران پر مارا جیسے میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، جیسے تم نے مجھ سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ”نماز پڑھ لینا تو اپنے وقت پر۔ پھر اگر تجھ کو ان کے ساتھ بھی نماز ملے تو پھر ان کے ساتھ بھی پڑھ لے اور یہ نہ کہہ کہ میں پڑھ چکا ہوں اب نہیں پڑھتا“ (کہ اس سے جماعت میں پھوٹ پڑے گی)۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہوگا جب تو باقی رہے گا ایسے لوگوں میں جو نماز میں اپنے وقت سے دیر کرتے ہیں۔ تو تم نماز اس کے وقت پر پڑھ لینا، پھر اگر تکبیر ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لے، اس لئے کہ اس میں نیکی کی زیادتی ہے۔
ابوالعالیہ نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن صامت سے کہا کہ ہم جمعہ کے دن حاکموں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور وہ نماز کو آخر وقت ادا کرتے ہیں ابوالعالیہ نے کہا کہ عبداللہ نے میری ران پر ایک ہاتھ مارا کہ میرے درد ہونے لگا اور کہا کہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی بات کو پوچھا تو انہوں نے بھی میری ران پر مارا اور کہا کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بات کو پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مسنون وقت پر نماز پڑھ لیا کرو اور ان کے ساتھ کی نماز کو نفل کر دیا کرو۔“ (راوی نے) کہا کہ عبداللہ نے کہا کہ مجھ سے ذکر کیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ مارا تھا۔
|