الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 77. باب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} وَهَلْ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَيْلَةَ الإِسْرَاءِ: باب: اس باب میں یہ بیان ہے کہ «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات میں دیکھا تھا یا نہیں۔
سلیمان شیبانی سے روایت ہے، میں نے زر بن حبیش سے پوچھا اس آیت کے متعلق «فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى» یعنی پھر رہ گیا فرق دو کمان کا یا اس سے بھی نزدیک۔ انہوں نے کہا: مجھ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا۔ ان کے چھ سو بازو تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴾ برقم (4856) وفي، باب: ﴿ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴾ برقم (4857) وفى بدء الخلق، باب: اذا قال احدكم آمين والملائكة فى السماء فوافقت احداهما الاخرى غفر له ما تقدم من ذنبه برقم (3232) والترمذي في ((جـامـعـه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة النجم وقال: هذا حديث حسن غریب صحيح - برقم (3277) انظر ((التحفة)) برقم (9205)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو حق تعالیٰ نے فرمایا: «مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى» ”یعنی جھوٹ نہ دیکھا۔ دل نے جو دیکھا۔“ مراد اس سے جبریل علیہ السلام کا دیکھنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ان کو، ان کے چھ سو (۶۰۰) پنکھ تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (431)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ جو حق تعالیٰ نے فرمایا: «لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى» ”بیشک دیکھیں اپنے رب کی بڑی نشانیاں۔“ مراد اس سے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں، چھ سو (۶۰۰) بازو تھے ان کے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (431)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس تفسیر میں «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» یعنی دیکھا ان کو دوسرے اتار میں کہ دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14184)»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اپنے دل کے ساتھ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (5912)»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے «مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى ٭ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» کی تفسیر میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (5423)»
اعمش بیان کرتے ہیں ابوجہمہ نے ہمیں اس سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (5423)»
مسروق سے روایت ہے، میں تکیہ لگائے ہوئے تھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس۔ انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ (یہ کنیت ہے مسروق کی) کہ تین باتیں ہیں جو کوئی ان کا قائل ہو اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر۔ میں نے کہا: وہ تین باتیں کون سی ہیں؟ انہوں نے کہا: (ایک یہ ہے) جو کوئی سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا، اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر۔ مسروق نے کہا: میں تکیہ لگائے تھا یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور میں نے کہا: اے ام المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دیں اور جلدی مت کریں، کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: «وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ٭ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مراد ان آیتوں میں جبریل علیہ السلام ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا۔ سوائے دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے میں نے دیکھا، ان کو وہ اتر رہے تھے آسمان سے اور ان کے تن و توش کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک روک دیا تھا۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تو نے نہیں سنا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ» کیا تو نے نہیں سنا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ» تک (دوسری یہ ہے) کہ جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا تو اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر۔ اللہ فرماتا ہے «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یعنی ”اے پیغام پہنچانے والے! پہنچا دے جو اترا تجھ پر تیرے رب کے پاس سے اور جو ایسا نہ کرے تو تو نے پیغام نہیں پہنچایا“ (تیسری یہ ہے) جو کوئی کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال) تو اس نے بڑا جھوٹ باندھا اللہ پر ... اللہ خود فرماتا ہے: «قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ» ”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کی بات نہیں جانتا سوائے اللہ کے“۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ﴾ باختصار برقم (4612) وفى، باب: سورة والنجم برقم (4855) مختصراً وفي التوحيد، باب: قول الله تعالى ﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴾ و ﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ و ﴿ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ﴾ و ﴿ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ﴾ و ﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ باختصار برقم (7380) وفى، باب: قول الله تعالى: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ﴾ برقم (7531) باختصار - والترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة الانعام وقال: حديث حسن صحيح برقم (3068) وفي، باب: ومن سورة النجم برقم (3278) انظر ((التحفه)) برقم (17613)»
داؤد نے اسی حدیث کو روایت کیا جیسے اوپر گزری اتنا زیادہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپانے والے ہوتے تو چھپاتے اس آیت کو «وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ» ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (438)»
مسروق سے روایت ہے، میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، انہوں نے کہا: سبحان اللہ! میرے روئیں کھڑے ہو گئے (اس بات کے سننے سے) اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح لیکن روایت داؤد کی (جو اوپر گزری) بڑی اور پوری ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (438)»
مسروق سے روایت ہے، میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا، (آپ تو کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو نہیں دیکھا) پھر اللہ تعالیٰ کا یہ قول کیسے ہے: «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى» انہوں نے کہا: اس آیت سے تو جبریل علیہ السلام مراد ہیں۔ وہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مردوں کی صورت میں آتے تھے، اور اس مرتبہ خاص اپنی صورت میں آئے، تو سارا کنارہ آسمان کا بھر گیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في بدء الخلق، باب: اذا قال احدكم: آمين والملائكة في السماء فوافقت احداهما الاخرى غفر له ما تقدم من ذنبه برقم (3234) انظر ((التحفة)) برقم (17618)»
|