الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 20. باب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الإِيمَانِ وَأَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ وَأَنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ: باب: اس بات کا بیان کہ بری بات سے منع کرنا ایمان کی علامت ہے، اور یہ کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر دونوں واجب ہیں۔
طارق بن شہاب سے روایت ہے، سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفائے بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: خطبہ سے پہلے نماز پڑھنی چاہئیے۔ مروان نے کہا: یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابوسعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے تو اپنا حق ادا کر دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلاف شرع) کام کو دیکھے تو اس کو مٹا دے اپنے ہاتھ سے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی (دل میں اس کو برا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد فى ((سننه)) فى الصلاة، باب: الخطبة يوم العيد برقم (1140) وفى الملاحم، باب: الامر والنهى برقم (4340) مختصراً بدون ذكر القصة والترمذي فى ((جامعه)) فى الفتن، باب: ما جاء فى تغيير المنكر باليد، او باللسان، او بالقلب - وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2172) والنسائى فى ((المجتبى من السنن)) 111/8-112 فى الايمان، باب: تفاضل اهل الايمان وابن ماجه فى ((سننه)) فى اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء فى صلاة العيدين برقم (1275) مطولا - وفي الفتن، باب: الامر بالمعروف والنهي عن المنكر - مطولا برقم (4013) انظر ((التحفة)) برقم (4032 و 4085)»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ والی روایت مروان کے قصے میں سابقہ حدیث کی طرح ہے اور اسی طرح یہ شعبہ اور سفیان کی روایت کی طرح ایک اور سند سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (175)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے اس کی امت میں سے حواری نہ ہوں اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے ہیں اور اس کے حکم کی پیروی کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں سے لڑے ہاتھ سے وہ مؤمن ہے اور جو کوئی لڑے زبان سے (ان کو برا کہے ان کی باتوں کا رد کرے) وہ بھی مؤمن ہے اور جو کوئی لڑے ان سے دل سے (ان کو برا جانے) وہ بھی مؤمن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں۔“ (یعنی اگر دل سے بھی برا نہ جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں) ابورافع (جنہوں نے اس حدیث کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور نام ان کا اسلم یا ابراہیم یا ہرمز یا ثابت بن یزید تھا۔ (مولیٰ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) نے کہا: میں نے یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔ انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا۔ اتفاق سے میرے پاس سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آئے اور قناۃ (مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی کا نام ہے) میں اترے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مجھے اپنے ساتھ لے گئے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی عیادت کو میں ان کے ساتھ گیا۔ جب ہم بیٹھے تو میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان کیا جیسے میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا تھا۔ صالح بن کیسان نے کہا کہ حدیث ابورافع سے اسی طرح بیان کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9602)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے حواری نہ ہوں وہ اس کی یعنی اپنے نبی کی راہ چلتے ہیں اور اس کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔“ پھر روایت کو اس طرح بیان کیا جیسے اوپر گزری مگر اس میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے آنے کا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ان سے ملنے کا ذکر نہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9602)»
|