Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
20. باب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الإِيمَانِ وَأَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ وَأَنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ:
باب: اس بات کا بیان کہ بری بات سے منع کرنا ایمان کی علامت ہے، اور یہ کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر دونوں واجب ہیں۔
حدیث نمبر: 180
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَارِثُ بْنُ الْفُضَيْلِ الْخَطْمِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا كَانَ مِنْ نَبِيٍّ، إِلَّا وَقَدْ كَانَ لَهُ حَوَارِيُّونَ، يَهْتَدُونَ بِهَدْيِهِ، وَيَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِهِ "، مِثْلَ حَدِيثِ صَالِحٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ قُدُومَ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَاجْتِمَاعِ ابْنِ عُمَرَ مَعَهُ.
حارث بن فضیل خطمی سے (صالح بن کیسان کے بجائے) عبدالعزیز بن محمد کی سند کےساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ ابو رافع سے روایت ہے۔ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی نبی گزرا ہے اس کے ساتھ کچھ حواری تھے جو اس (نبی) کے نمونہ زندگی کو اپناتے اور اس کی سنت کی پیروی کرتے تھے .... صالح کی روایت کی طرح۔ لیکن (عبد العزیز نے) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی آمد اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نبی بھی گزرا ہے اس کے ساتھ کچھ حواری (معاون، مدد گار) تھے۔ جو اس کی راہ ورسم کو اپناتے اور اس کی سنت کی پیروی کرتے تھے۔ آگے صالح کی روایت کی طرح ہے، لیکن اس میں عبداللہ بن مسعود ؓ کی آمد اور عبداللہ بن عمر ؓ سے ان کی ملاقات کا تذکرہ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9602)» ‏‏‏‏

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 180 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 180  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
هَدي:
رویہ،
طرز عمل یا وطیرہ،
سنت،
طریقہ،
راستہ۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین کے جانشینوں اور ان کے نام لیواؤں میں غلط کار اور بدکردار لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کو تو اعمال خیر کی دعوت دیتے ہیں،
لیکن خود ان پر عمل نہیں کرتے،
ہاں لوگوں کے سامنے ایسے نیک اور اچھے کاموں کے کرنے کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں جو کیے نہیں ہوتے،
اور اس کے برعکس،
اپنی بد کرداری اور بے عملی کو چھپانے کےلیے ایسی رسوم اور بدعات نکالتے ہیں،
جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،
چونکہ یہ رسول ونبی کی جانشینی کے دعویدار ہوتے ہیں،
اس لیے لوگ ان کے فریب میں آجاتے ہیں اور دین کے اندر دین کے نام سے بدعات راہ پاجاتی ہیں،
ایسے غلط کار اور بدعتی لوگوں کے خلاف حسب استطاعت ہاتھ سے یا زبان سے جہاد کرنا اہل حق کی ذمہ داری ہے۔
اگر قوت وطاقت اور زبان سے ان کے خلاف جہاد ممکن نہ ہو تو ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کا جذبہ رکھنا،
ان بدعات کو مٹانے کی تدابیر سوچنا اور ان افعال سے دل میں نفرت وبغض رکھنا اور ان بدعتوں کے داعیوں سے دل میں غیظ وغضب رکھنا ایمان کے شرائط ولوازم میں سے ہے۔
جو شخص اپنے دل میں بھی اس جہاد کا جذبہ نہ رکھتا ہو اس کا دل ایمان کی حرارت اور اسکے سوز سے گویا بالکل خالی ہے۔
(2)
دین کی نشر واشاعت اور دین کی تعلیم وتدریس اور تبلیغ اوردین کے خلاف ہونے والے امور سے اس کا تحفظ ودفاع بھی جہاد ہے،
جس طرح سیف وسنان اور توپ وتفنگ سے جہاد کیا جاتا ہے،
اسی طرح قلم وزبان سے بھی جہاد ہوتا ہے اور اس کی اہمیت گھٹانا اور اس کی تحقیرکرنا درست نہیں ہے۔
(3)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اس حدیث سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ بعض حدیثوں میں منکرات کی عام ترویج کے دور کے بارے میں آیا ہے "اصْبِرُوْا حَتَی تَلْقَوْنِيْ" صبر کرنا،
یہاں تک قیامت کو تم مجھے ملو۔
اوردرحقیقت ان دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں ہے،
اس حدیث کا تعلق اس دور سے ہے،
جب انکار منکر سے خرابی اور برائی میں اضافہ کا ڈر ہو یا فتنہ وفساد ابھرنے اور خونریزی کا خطرہ ہو،
اس بنا پر امام احمدؒ نے بھی اس حدیث کا انکار کیا ہے،
لیکن علمائے امت نے امام احمدؒ کے قول کی تردید کی ہے اور اس کو تعجب خیز قرار دیا ہے۔
(شرح مسلم نووی: 1/52)
اس باب کی احادیث سے ایمان کے مختلف مراتب ثابت ہوتے ہیں اور اس میں قوت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 180