زکوٰۃ کے مسائل اس آدمی کے بارے میں جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم وہی نقصان والے ہیں۔ تب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور نہ ٹھہر سکا کہ کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، وہ کون (لوگ) ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہت مال والے ہیں۔ مگر جس نے خرچ کیا ادھر اور ادھر اور جدھر مناسب ہوا اور دیا آگے سے اور پیچھے سے اور داہنے اور بائیں سے اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں۔ (یعنی جہاں دین کی تائید اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی دیکھی وہاں بلا تکلف خرچ کیا) اور جو اونٹ، گائے اور بکری والا ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا تو قیامت کے دن وہ جانور، جیسے دنیا میں تھے اس سے زیادہ موٹے اور چربیلے ہو کر آئیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے، اور اپنے کھروں سے اس کو روندیں گے۔ جب ان جانوروں میں سب سے پچھلا گزر جائے گا تو آگے والا پھر اس پر آ جائے گا۔ اور جب تک بندوں کا فیصلہ نہ ہو جائے، اس کو یہی عذاب ہوتا رہے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی چاندی یا سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کیلئے آگ کی چٹانوں کے پرت بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کئے جائیں گے جس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ داغی جائے گی۔ جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو پھر گرم کئے جائیں گے۔ اس وقت جبکہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہے، بندوں کا فیصلہ ہونے تک اس کو یہی عذاب ہو گا اور یہاں تک کہ اس کی راہ جنت یا دوزخ کی طرف نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر اونٹ (والوں) کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوھ کر غریبوں کو بھی پلائے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوھ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا ہے) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے۔ پھر جب ان کا پہلا جانور روندتا چلا جائے گا تو پچھلا آ جائے گا۔ یونہی سدا عذاب ہوتا رہے گا سارا دن جو کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر اس کی جنت یا دوزخ کی طرف کچھ راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! گائے بکری کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور ان گائے بکریوں میں سے سب آئیں گی، کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی نہ بے سینگ اور نہ ٹوٹے ہوئے سینگوں والی اور آ کر اس کو اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی۔ جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی تو پچھلی پھر آئے گی، یہی عذاب اس کو پچاس ہزار برس کے سارے دن میں ہوتا رہے گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر جنت یا دوزخ کی طرف اس کی کوئی راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اور گھوڑے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک اپنے مالک پر بار (یعنی وبال) ہے، دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور تیسرا اپنے مالک کیلئے ثواب کا سامان ہے۔ اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو اس لئے باندھا گیا ہے کہ لوگوں کو دکھائے اور لوگوں میں بڑھکیں مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے، سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے۔ اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لئے) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے، تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے۔ اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا کہ وہ گھوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں اور اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے کسی چراگاہ یا باغ میں باندھا گیا ہے۔ پھر اس نے اس چراگاہ یا باغ سے جو کھایا اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لئے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا۔ اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلوں پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جب اس کا مالک کسی ندی پر سے گزرے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا، تب بھی اس کے لئے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پئے ہیں۔ (یہ ثواب تو بے ارادہ پانی پی لینے میں ہے پھر جب پانی پلانے کے ارادہ سے لے جائے تو کیا کچھ ثواب نہ پائے گا) پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! گدھے کا حال بیان فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گدھوں کے بارے میں میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا سوائے اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے کہ ”جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا“۔
|