تفسیر القرآن الکریم

سورة الصافات
فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ[94]
تو وہ دوڑتے ہوئے اس کی طرف آئے۔[94]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 94) فَاَقْبَلُوْۤا اِلَيْهِ يَزِفُّوْنَ: زَفَّ يَزِفُّ زَفًّا وَ زُفُوْفًا وَ زَفِيْفًا (ض) تیزی سے جانا، دوڑنا۔ یعنی بتوں کا یہ حال دیکھ کر قوم کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ ان کا یہ حال کس نے کیا ہے، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام انھیں پہلے ہی اپنے ارادے سے آگاہ کر چکے تھے، اس لیے وہ سب دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے اور انھیں پکڑ کر مجمع میں لے آئے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء (۵۹ تا ۶۱)۔