قرآن مجيد

سورة الأعراف
وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ[73]
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، سو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کسی برے طریقے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔[73]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 73، 74، 75، 76، 77، 78،

ثمود کی قوم اور اس کا عبرت ناک انجام ٭٭

علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح , یہ بھائی تھا جدیس بن عامر کا۔ اسی طرح قبیلہ طسم یہ سب خالص عرب تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ثمودی عادیوں کے بعد ہوئے ہیں۔ ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القری اور اس کے اردگرد مشہور ہیں۔ سنہ ٩ھ میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گزرے تھے۔

مسند احمد میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے میدان میں اترے۔ لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے، ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں۔ پھر فرمایا: یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا: آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ۔ [مسند احمد:117/2:صحیح] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ ان کی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گزرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آ جائیں جو ان پر آئے تھے۔ [صحیح بخاری:4420] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے: غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کا کہا: «اَلصَلٰوۃُ جَامِعةٌ» جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الٰہی نازل ہوا۔ راوی حدیث ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا۔ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتا رہا ہوں۔ تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتا رہا ہے جو گزر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں۔ پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ۔ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں۔ یاد رکھو! ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کر سکیں گے۔ [مسند احمد:231/4:حسن] ‏‏‏‏

سیدنا ابوکبشہ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ایک روایت میں ہے کہ ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معجزے نہ طلب کرو۔ دیکھو! قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے۔ اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے، سب کے سب ڈھیر ہو گئے۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا۔ لوگوں نے پوچھا: اس کا نام کیا تھا؟ فرمایا: ابورغال، یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا۔ [مسند احمد:296/3:حسن] ‏‏‏‏

یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ ثمودی قبیلے کی طرف سے ان کے بھائی صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ تمام نبیوں کی طرح آپ نے بھی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید الٰہی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے: جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، صرف میری ہی عبادت کرو۔

اور ارشاد ہے: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو۔

صالح علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگو! تمہارے پاس دلیل الٰہی آ چکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے۔ ان لوگوں نے صالح علیہ السلام سے معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کاتبہ تھا، اس سے آپ ایک اونٹنی نکالیں جو گابھن ہو (‏‏‏‏دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو) صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو تم ایمان قبول کر لو گے؟ انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے۔ صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی، دعا کی۔ ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی۔ اس کے پیچھے سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کیلئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن صمعر بن جلھس وغیرہ نے انہیں روک دیا۔ جندع کا بھتیجا شہاب نامی، یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا۔ اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کر لیا۔ انہی بدبختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مومن ثمودی مہوش بن عثمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی۔ قریب تھا کہ وہ مشرف بہ اسلام ہو جائے اور اگر ہو جاتا تو اس کی عزت سو اور ہو جاتی مگر بدبختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا۔

اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا۔ ایک مدت تک دونوں ان میں رہے۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی، اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے۔ دوسرے دن نی پیتی اور ثمودیوں کے اور جانور پی لیتے۔جیسے قرآن میں ہے آیت «وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ» [54-القمر:28] ‏‏‏‏ اور آیت میں ہے «قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ» [26-الشعراء:155] ‏‏‏‏ ” یہ ہے اونٹنی، اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں۔ “

یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی۔ ایک راہ جاتی، دوسری راہ آتی۔ یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی۔ جس راہ سے گزرتی سب جانور ادھر ادھر ہو جاتے۔

کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں۔ ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا۔ یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے «فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا ١ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوّٰىهَا» [91-الشمس:14] ‏‏‏‏ ” قوم صالح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کر دیا۔ “

اور آیت میں ہے کہ ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لیے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت مجلز جو ایک بڑھیا کافرہ تھی اور صالح علیہ السلام سے بڑی دشمنی رکھتی تھی، اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدوف بنت محیا بن مختار تھا۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی، اس کے خاوند مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ عنہ۔ اس سرکش عورت نے ان کو چھوڑ دیا۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہو جائے اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کر دے۔ صدوف نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آ جاؤں گی، اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس نے مصدع بن مہرج بن محیاء کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتون تھا، اس برائی پر آمادہ ہو گیا۔ ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے، اسے میں تجھے دے دوں گی، اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہو گیا۔ یہ تھا بھی زناکاری کا بچہ، سالف کی اولاد میں نہ تھا۔ صھیاد نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زناکاری کی تھی، اسی سے یہ پیدا ہوا تھا۔

اب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہو گئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے۔

جیسے قرآن کریم میں ہے «وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ» [27-النمل:49-50] ‏‏‏‏ اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا، سراسر فسادی ہی تھے۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے۔ ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہو گئے اور اونٹنی کے واپس آنے کے راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ گئے۔ جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوست ہو گیا۔ اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا۔ اس نے کہا: قدار کیا دیکھتے ہو؟ اٹھو اور اس کا کام تمام کر دو۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے۔ اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہو گیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا۔ یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مر گئی۔ اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر تین مربتہ بلبلایا۔

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی۔ پھر جس چٹان سے نکلا تھا، اسی میں سما گیا۔

یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا تھا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے۔ دیکھا کہ اونٹنی بےجان پڑی ہے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے، ہوا بھی یہی۔ بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا۔ اس لیے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کر لیا کہ آج شام کو صالح علیہ السلام کو بھی مار ڈالو۔ اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے؟ اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آؤ، روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہو جائیں۔

چنانچہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہہ تیغ کرو اور صاف انکار کر دو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے: ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بےخبر رہے۔ اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا؟ رات کو یہ اپنی بد نیتی سے صالح علیہ السلام کے گھر کی طرف چلے۔ آپ کا گھر پہاڑ کی بلندی پر تھا۔ ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا۔

ان کا تو یہ حشر ہوا۔ ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے۔ جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہو گئے اور ہفتہ کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا، ان کے منہ سیاہ ہو گئے۔ تین دن جب گزر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک، دہشت انگیز چنگھاڑ نے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے، ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا۔ ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہو گیا۔ مردوں سے مکانات، بازار، گلی، کوچے بھر گئے۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہو گئے۔

شان رب دیکھئیے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لیے ایک کافرہ عورت بچا دی گئی۔ یہ بھی بڑی خبیثہ تھی، صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی، اس کی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا، ادھر اس کے پاؤں کھل گئے، اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا۔ ابھی پوری پیاس بھی بجھی نہ تھی کہ عذاب الٰہی آ پڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی۔

ہاں ابورغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا۔ یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا، اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا۔ ثمودیوں میں سے سوائے صالح علیہ السلام اور ان کے مومن صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کوئی بھی نہ بچا۔ ابورغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہو چکا ہے۔ قبیلہ ثقیف جو طائف میں ہے، مذکور ہے کہ یہ اسی نسل میں سے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:14823/12:معضل ضعیف] ‏‏‏‏

عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گزرے تو فرمایا: جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ ابورغال کی قبر ہے۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا، اپنی قوم کے عذاب کے وقت حرم میں تھا۔ اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی۔ چنانچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی۔

اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے۔

ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔

یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کر دی گئی ہے۔ یہی نشان اس کی قبر کا ہے، اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چنانچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکال لی۔ [سنن ابوداود:3088، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے لیکن میں کہتا ہوں: اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بجیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے۔

اور بقول امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سوائے اسماعیل بن امیہ کے، اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا۔ احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطا نہ ہو۔ یہ عبداللہ بن عمرو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے۔

میرے استاد شیخ ابوالحجاج رحمہ اللہ اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا: بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔