توہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، اپنی عظیم رحمت سے نجات دی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ایمان والے نہ تھے۔[72]
قوم عاد کی سرکشی، تکبر، ضد اور عناد کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے ہود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کی تشریف آوری کا مقصد یہی ہے کہ ہم اللہ واحد کے پرستار بن جائیں اور باپ دادوں کے پرانے معبودوں سے روگردانی کر لیں؟ سنو! اگر یہی مقصود ہے تو اس کا پورا ہونا محال ہے۔
ہم تیار ہیں اگر تم سچے ہو تو اپنے اللہ سے ہمارے لیے عذاب طلب کرو۔ یہی کفار مکہ نے کہا تھا۔ کہنے لگے کہ ” یااللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا حق ہے اور واقعی تیرا کلام ہے اور ہم نہیں مانتے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور سخت المناک عذاب ہمیں کر۔ “ [8-الأنفال:32]
قوم عاد کے بتوں کے نام یہ ہیں: صمد، صمودھبا۔ ان کی اس ڈھٹائی کے مقابلے میں اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہاری ین باتوں سے بےشک تم پر اللہ کا عذاب اور اس کا غضب ثابت ہو گیا۔
«رِجْسٌ» سے مراد «رجز» یعنی عذاب ہے۔ ناراضی اور غصے کے معنی یہی ہیں۔
پھر فرمایا کہ تم ان بتوں کی بابت مجھ سے جھگڑ رہے ہو جن کے نام بھی تم نے خود رکھے ہیں یا تمہارے بڑوں نے اور خواہ مخواہ بےوجہ انہیں معبود سمجھ بیٹھے ہو، یہ پتھر کے ٹکڑے محض بےضرر اور بےنفع ہیں۔ نہ اللہ نے ان کی عبادت کی کوئی دلیل اتاری ہے۔ ہاں اگر مقابلے پر اتر ہی آئے ہو تو منتظر رہو، میں بھی منتظر ہوں۔ ابھی معلوم ہو جائے گا کہ مقبول بارگاہ رب کون ہے اور مردود بارگاہ کون ہے؟ کون مستحق عذاب ہے اور کون قابل ثواب ہے؟ آخر ہم نے اپنے نبی علیہ السلام کو اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو نجات دی اور کافروں کی جڑیں کاٹ دیں۔
قرآن کریم کے کئی مقامات پر جناب باری عزوجل نے ان کی تباہی کی صورت بیان فرمائی ہے کہ ان پر خیر سے خالی، تند اور تیز ہوائیں بھیجی گئیں جس نے انہیں اور ان کی تمام چیزوں کو غارت اور برباد کر دیا۔ عاد لوگ بڑے زناٹے کی سخت آندھی سے ہلاک کر دیئے گئے جو ان پر برابر سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی۔ سارے کے سارے اس طرح ہو گئے جیسے کھجور کے درختوں کے تنے الگ ہوں اور شاخیں الگ ہوں۔ دیکھ لے! ان میں سے ایک بھی اب نظر آ رہا ہے؟ ان کی سرکشی کی سزا میں سرکش ہوا ان پر مسلط کر دی گئی جو ان میں سے ایک ایک کو اٹھا کر آسمان کی بلندی کی طرف لے جاتی اور وہاں سے گراتی جس سے سر الگ ہو جاتا، دھڑ الگ گر جاتا۔
یہ لوگ یمن کے ملک میں، عمان اور حضر موت میں رہتے تھے۔ ادھر ادھر نکلتے، لوگوں کو مار پیٹ کی جبراً و قہراً ان کے ملک و مال پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے۔ سارے کے سارے بت پرست تھے۔
ہود علیہ السلام جو ان کے شریف خاندانی شخص تھے، ان کے پاس رب کی رسالت لے کر آئے۔ اللہ کی توحید کا حکم دیا، شرک سے روکا، لوگوں پر ظلم کرنے کی برائی سمجھائی لیکن انہوں نے اس نصیحت کو قبول نہ کیا۔ مقابلے پر تن گئے اور اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے۔
گو بعض لوگ ایمان لائے تھے لیکن وہ بھی بےچارے جان کے خوف سے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔ باقی لوگ بدستور اپنی بےایمانی اور ناانصافی پر جمے رہے، خواہ مخواہ فوقیت ظاہر کرنے لگے، بے کار عمارتیں بناتے اور پھولے نہ سماتے۔ ان کاموں کو اللہ کے رسول ناپسند فرماتے، انہیں روکتے۔ تقویٰ کی، اطاعت کی ہدایت کرتے لیکن یہ کبھی تو انہیں بےدلیل بتاتے، کبھی انہیں مجنون کہتے۔ آپ اپنی برات ظاہر کرتے اور ان سے صاف فرماتے کہ مجھے تمہاری قوت طاقت کا مطلقاً خوف نہیں۔ جاؤ تم سے جو ہو سکے، کر لو۔ میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی بھروسے کے لائق، نہ عبادت کے قابل۔ ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز، پست اور لاچار ہے۔ سچی راہ اللہ کی راہ ہے۔
آخر جب یہ اپنی برائیوں سے باز نہ آئے تو ان پر بارش نہ برسائی گئی، تین سال تک قحط سالی رہی۔ زچ ہو گئے، تنگ آ گئے۔ آخر یہ سوچا کہ چند آدمیوں کو بیت اللہ شریف بھیجیں۔ وہ وہاں جا کر اللہ سے دعائیں کریں۔
یہی ان کا دستور تھا کہ جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے تو وہاں وفد بھیجتے۔ اس وقت ان کا قبیلہ عمالیق حرم شریف میں بھی رہتا تھا۔ یہ لوگ عملیق بن لاوذ بن سام بن نوح کی نسل میں سے تھے۔ ان کا سردار اس زمانے میں معاویہ بن بکر تھا۔ اس کی ماں قوم عاد سے تھی جس کا نام کلھدہ بنت خبیری تھا۔
عادیوں نے اپنے ہاں سے ستر شخصوں کو منتخب کر کے بطور وفد مکے شریف کو روانہ کیا۔ یہاں آ کر یہ معاویہ کے مہمان بنے۔ پرتکلف دعوتوں کے اڑانے، شراب خوری کرنے اور معاویہ کی دو لونڈیوں کا گانا سننے میں اس بےخودی سے مشغول ہو گئے کہ کامل ایک مہینہ گزر گیا۔ انہیں اپنے کام کی طرف مطلق توجہ نہ ہوئی۔
معاویہ ان کی یہ روش دیکھ کر اور اپنی قوم کی بری حالت سامنے رکھ کر بہت کڑھتا تھا لیکن یہ مہمان نوازی کے خلاف تھا کہ خود ان سے کہتا کہ جاؤ۔ اس لیے اس نے کچھ اشعار لکھے اور ان ہی دونوں کنیزوں کو یاد کرائے کہ وہ یہی گا کر انہیں سنائیں۔
ان شعروں کا مضمون یہ تھا کہ اے لوگو! جو قوم کی طرف سے اللہ سے دعائیں کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو کہ اللہ عادیوں پر بارش برسائے جو آج قحط سالی کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں۔ بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔ بڈھے، بچے، مرد، عورتیں تباہ حال پھر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بولنا چالنا ان پر دو بھر ہو گیا ہے۔ جنگلی جانور ان کی آبادیوں میں پھر رہے ہیں کیونکہ کسی آدمی میں اتنی قوت کہاں کہ وہ تیر چلا سکے۔ لیکن افسوس کہ تم یہاں اپنے من مانے مشغلوں میں منہمک ہو گئے اور بےفائدہ وقت ضائع کرنے لگے۔ تم سے زیادہ برا وفد دنیا میں کوئی نہ ہو گا۔
یاد رکھو! اگر اب بھی تم نے مستعدی سے قومی خدمت نہ کی تو تم برباد اور غارت ہو جاؤ گے۔ یہ سن کر ان کے کان کھڑے ہوئے۔ یہ حرم میں گئے اور دعائیں مانگنا شروع کیں۔ اللہ تعالیٰ نے تین بادل ان کے سامنے پیش کئے۔ ایک سفید، ایک سیاہ، ایک سرخ۔ اور ایک آواز آئی کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لو۔ اس نے سیاہ بادل پسند کیا۔ آوز آئی کہ تو نے سیاہ بادل پسند کیا، جو عادیوں میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑے گا۔ نہ باپ کو، نہ بیٹے کو۔ سب کو غارت کر دے گا سوائے بنی لوذید کے۔
یہ بنی لوذید بھی عادیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مکہ میں مقیم تھے۔ ان پر وہ عذاب نہیں آئے تھے۔ یہی باقی رہے اور انہی میں سے عاد اخریٰ ہوئے۔
اس وفد کے سردار نے سیاہ بادل پسند کیا تھا جو اسی وقت عادیوں کی طرف چلا۔ اس شخص کا نام قیل بن غز تھا۔ جب یہ بادل عادیوں کے میدان میں پہنچا جس کا نام مغیث تھا تو اسے دیکھ کر لوگ خوشیاں منانے لگے کہ اس ابر سے پانی ضرور برسے گا حالانکہ یہ وہ تھا جس کی یہ لوگ نبی کے مقابلہ میں جلدی مچا رہے تھے جس میں المناک عذاب تھا جو تمام چیزوں کو فنا کر دینے والا تھا۔
سب سے پہلے اس عذاب الٰہی کو ایک عورت نے دیکھا جس کا نام ممید تھا۔ یہ چیخ مار کر بےہوش ہو گئی۔ جب ہوش آئی تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا: آگ کا بگولہ جو بصورت ہوا کے تھا جسے فرشتے گھسیٹے لیے چلے آتے تھے۔ برابر سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ آگ والی ہوا ان پر چلتی رہی اور عذاب کا بادل ان پر برستا رہا۔ تمام عادیوں کا ستیاناس ہو گیا۔
ہود علیہ السلام اور آپ کے مومن ساتھی ایک باغیچے میں چلے گئے۔ وہاں اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔ وہی ہوا ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہو کر ان کے جسموں کو لگتی رہی جس سے روح کو تازگی اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی رہی۔
ہاں عادیوں پر اس ہوا نے سنگباری شروع کر دی، ان کے دماغ پھٹ گئے۔ آخر انہیں اٹھا اٹھا کر دے پٹخا، سر الگ ہو گئے، دھڑ الگ جا پڑے۔ یہ ہوا سوار کو سواری سمیت ادھر اٹھا لیتی تھی اور بہت اونچے لے جا کر اسے اوندھا دے پٹختی تھی الخ۔
یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سے فوائد ہیں۔ عذاب الٰہی کے آ جانے سے ہود علیہ السلام کو اور مومنوں کو نجات مل گئی۔ رحمت حق ان کے شامل حال رہی اور باقی کفار اس بدترین سزا میں گرفتار ہوئے۔
مسند احمد میں ہے، حارث بکری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے ہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر چلا جب میں ربذہ میں پہنچا تو بنو تمیم کی ایک بڑھیا لاچار ہو کر بیٹھی ہوئی ملی۔ مجھ سے کہنے لگی: اے اللہ کے بندے! مجھے سرکار رسالت مآب میں پہنچنا ہے۔ کیا تو میرے ساتھ اتنا سلوک کرے گا کہ مجھے دربار رسالت میں پہنچا دے؟ میں نے کہا: آؤ۔ چنانچہ میں نے اسے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور مدینے پہنچا۔ دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیاہ جھنڈے لہرا رہے ہیں اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار لٹکائے کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں کہیں لشکر بھیجنے والے ہیں۔ میں تھوری دیر بیٹھا رہا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل میں تشریف لے گئے۔ میں آپ کے پیچھے ہی گیا۔ اجازت طلب کی۔ اجازت ملی، جب میں نے اندر جا کر سلام کیا تو آپ نے مجھ سے دریافت کیا: تم میں اور بنو تمیم میں کچھ چشمک ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ دار وہی ہیں۔ میں اب حاضر خدمت ہو رہا تھا تو راستے میں قبیلہ تمیم کی ایک بڑھیا عورت مل گئی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی۔ اس نے مجھ سے درخواست کی اور میں اسے اپنی سواری پر بٹھا کر یہاں لایا ہوں۔ وہ دروازے پر بیٹھی ہے۔ آپ نے اسے بھی اندر آنے کی اجازت دی۔
میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر دیجئے۔ اس پر بڑھیا تیز ہو کر بولی: اگر آپ نے ایسا کر دیا تو آپ کے ہاں کے بےبس کہاں پناہ لیں گے؟ میں نے کہا: سبحان اللہ! تیری اور میری تو وہی مثل ہوئی کہ بکری اپنی موت کو آپ اٹھا کر لے گئی۔ میں نے ہی تجھے یہاں پہنچایا ہے، مجھے اس کے انجام کی کیا خبر تھی؟ اللہ نہ کرے کہ میں عادی قبیلے کے وفد کی طرح ہو جاؤں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ بھئی عادیوں کے وفد کا قصہ کیا ہے؟ باوجود یہ کہ آپ کو مجھ سے زیادہ اس کا علم تھا لیکن یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے قصہ شروع کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت عادیوں میں قحط سالی نمودار ہوئی تو انہوں نے قیل نامی ایک شخص کو بطور اپنے قاصد کے بیت اللہ شریف دعا وغیرہ کرنے کے لئے بھیجا۔ یہ معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر مہمان بنا۔ یہاں شراب و کباب اور راگ رنگ میں ایسا مشغول ہوا کہ مہینے بھر تک جام لنڈھاتا رہا اور معاویہ کی دو لونڈیوں کے گانے سنتا رہا، ان کا نام جرادہ تھا۔ مہینے بھر کے بعد مہرہ کے پہاڑوں پر گیا اور اللہ سے دعا مانگنے لگا کہ باری تعالیٰ! میں کسی بیمار کی دوا کے لیے یا کسی قیدی کے فدیئے کے لیے نہیں آیا۔ یااللہ! عادیوں کو تو وہ پلا جو پلایا کرتا تھا۔ اتنے میں وہ دیکھتا ہے کہ چند سیاہ رنگ کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک غیبی صدا آئی کہ ان میں سے جو تجھے پسند ہو، قبول کر لے۔ اس نے سخت سیاہ بادل کو اختیار کیا۔ اسی وقت دوسری آواز آئی کہ لے لے خاک راکھ جو عادیوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑے۔ عادیوں پر ہوا کے خزانے میں سے صرف بقدر انگوٹھی کے حلقے کے ہوا چھوڑی گئی تھی جس نے سب کو غارت اور تہ و بالا کر دیا۔
ابووائل کہتے ہیں: یہ واقعہ سارے عرب میں ضرب المثل ہو گیا تھا جب لوگ کسی کو بطور وفد کے بھیجتے تھے تو کہہ دیا کرتے تھے کہ عادیوں کے وفد کی طرح نہ ہو جانا۔ [مسند احمد:482/3:حسن]
اسی طرح مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ سنن کی اور کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»