تو وہ ان سے واپس لوٹا اور اس نے کہا اے میری قوم! بلاشبہ یقینا میں نے تمھیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمھاری خیرخواہی کی اور لیکن تم خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔[79]
صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں ٭٭
قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس و حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا، نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی۔ تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے، وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے۔ پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے: اے ابوجہل، اے عتبہ، اے شیبہ، اے فلاں، اے فلاں! بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہو گئے؟ آپ نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں، اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں۔ [صحیح بخاری:3976]
سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا: تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس سے نکال دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی۔ افسوس! تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو۔ [سیرة ابن هشام:212/2:معضل ضعیف]
یہی صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی، اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ! نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ حق کی پیروی کی، نہ اپنے خیرخواہ کی مانی۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھا۔
بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے، انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا اور حرم مکہ میں پناہ لیتا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی عسفان پہنچے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ آپ نے جواب دیا: وادی عسفان۔ فرمایا: میرے سامنے سے ہود اور صالح علیہما السلام ابھی ابھی گزرے، اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں۔ کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ [مسند احمد:232/1:ضعیف]