317- وبه: عن أبيه عن عبد الله بن عمرو بن عثمان عن ابن أبى عمرة الأنصاري عن زيد بن خالد الجهني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ألا أخبركم بخير الشهداء الذى يأتي بشهادته قبل أن يسألها أن يخبر بشهادته قبل أن يسألها.“
سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں گواہوں میں سے بہترین گواہ نہ بتا دوں؟ جو پوچھنے سے پہلے گواہی پیش کرتا ہے اور پوچھے جانے سے پہلے گواہی دے دیتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 522]
تخریج الحدیث: «317- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 720/2 ح 1462، ك 36 ب 2 ح 3) التمهيد 393/17، الاستذكار: 1386، و أخرجه مسلم (1719) من حديث مالك به .»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 522
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم فواد 1719، من حديث ما لك به] تفقه: ➊ اگر سچا گواہ مطالبے کے بغیر سچی گواہی دے تو یہ انتہائی بہترین اور نیک کام ہے۔ ➋ اس حدیث کی سند میں روایت کرنے والے چار تابعی ہیں: عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عبد اللہ بن عمرو بن عثمان اور ابوعمرہ بن ابی عمرہ الانصاری، رحمہ اللہ اجمعین۔ ➌ بعض لوگ مطالبے کے بغیر گواہی دے دیتے ہیں۔ اگر یہ گواہی سچی ہے تو نیکی کا کام ہے اور اگر جھوئی ہے تو کبیرہ گناہ ہے۔ ➍ شرعی عذر کے بغیر سچی گواہی چھپانا جائز نہیں ہے۔ ➎ حاضرین کومتوجہ کرنے کے لئے استفہامیہ (سوالیہ) انداز اختیار کرنا نہ صرف جائز بلک تعلیم و تدریس کے سلسلے میں مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 317
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3596
´گواہیوں کا بیان۔` زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں سب سے بہتر گواہ نہ بتاؤں؟ جو اپنی گواہی لے کر حاضر ہو“ یا فرمایا: ”اپنی گواہی پیش کرے قبل اس کے کہ اس سے پوچھا جائے ۱؎۔“ عبداللہ بن ابی بکر نے شک ظاہر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الذي يأتي بشهادته» فرمایا، یا «يخبر بشهادته» کے الفاظ فرمائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک کہتے ہیں: ایسا گواہ مراد ہے جو اپنی شہادت پیش کر دے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ کس کے حق میں مفید ہے اور کس کے حق میں غیر مفید۔ ہمدانی کی روایت میں ہے: اسے بادشاہ کے پاس لے جائے، اور ابن السرح کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3596]
فوائد ومسائل: توضیح: صحیح بخاری ومسلم کی روایت میں آیا ہے۔ کہ (قرب قیامت میں) ایسے لوگ ہوں گے جوگواہیاں دیں گے۔ حالانکہ ان سے گواہی طلب نہ کی جائے گی۔ وہ قسمیں کھایئں گے حالانکہ ان سے قسمیں طلب نہ کی جایئں گی۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2652۔ و صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 2535) تو اس میں ان لوگوں کی مذمت ہے۔ جو جھوٹے ہوں۔ کسی کا حق مارنے یا کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے کےلئے یہ قسمیں کھایئں گے۔ اور آگے بڑھ بڑھ کر گواہیاں دیں گے۔ جبکہ زیر بحث حدیث میں صادق اور امین لوگوں کومدح ہے۔ جو مجبور اور سادہ لوگوں کی مددکریں۔ یا حاکم اور قاضی کےلئے حق وانصاف میں معاون بنیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا تعلق اس امانت اور عاریت سے جوکسی یتیم کی ہو۔ اور سوائے اس گواہ کے کسی اور کے علم میں نہ ہو۔ اور وہ از خود حاکم کے پاس جا کر حقدار کا حق دلوادے تو یقینا وہ بہترین گواہ ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3596
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2364
´گواہ موجود ہے لیکن صاحب معاملہ کو اس کی خبر نہیں ہے تو گواہ کیا کرے؟` زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بہتر گواہ وہ ہے جو پوچھے جانے سے پہلے گواہی دیدے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2364]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) پچھلے باب سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہی اس کو دینی چاہیے جس سے مطالبہ کیاجائے جب کہ اس باب میں مطالبہ کرنے سے پہلے گواہی دینے والے کوبہترین گواہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں ہی درست ہیں۔ دونوں حدیثوں کےدرمیان تطبیق اورجمع کی صورت یہ ہے کہ پہلی صورت اس وقت ہےجب گواہی دینے والے کا خیال ہو کہ مجھ پر اعتبار نہیں کیا جائے گا، یا یہ خیال ہو کہ دوسرے گواہ موجود ہیں، لہٰذا اگر میں گواہی نہ دوں تو کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اس حدیث میں ایسے گواہ کا ذکر ہے جس کے گواہی نہ دینے کی وجہ سے کسی کی حق تلفی کا خطرہ ہے کیونکہ اورگواہ موجود نہیں یا قابل اعتماد نہیں۔
(2) جب مدعی کو معلوم نہ ہو کہ فلاں میرے حق میں گواہی دے سکتا ہے تووہ اس سے درخواست نہیں کرسکتا کہ وہ میرے حق میں گواہی دے، اس صورت میں مسلمان کی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اسے اس کا حق دلانے کےلیے اس سے تعاون کرتےہوئے گواہی دی جائے یہ بہت ثواب کا کام ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2364
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2295
´سب سے اچھے گواہوں کا بیان۔` زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں سب سے اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتا دوں؟ سب سے اچھا گواہ وہ آدمی ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الشهادات/حدیث: 2295]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس گواہی کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہے جس میں کسی گواہ کی ضرورت ہے اور اس کے علم کے مطابق اس معاملہ کا کوئی گواہ نہیں ہے، پھر اچانک ایک دوسرا شخص آئے اورخود سے اپنے آپ کو پیش کرے اوراس معاملہ کی گواہی دے تو اس حدیث میں ایسے ہی گواہ کو سب سے بہترگواہ کہا گیا ہے، معلوم ہوا کہ کسی کے پاس اگرکوئی شہادت موجود ہے تو اسے قاضی کے سامنے حاضر ہو کرمعاملہ کے تصفیہ کی خاطر گواہی دینی چاہئے اسے اس کے لیے طلب کیا گیا ہو یا نہ طلب کیا گیا ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2295
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2297
´سب سے اچھے گواہوں کا بیان۔` زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”سب سے بہتر گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی کا فریضہ ادا کر دے۔“[سنن ترمذي/كتاب الشهادات/حدیث: 2297]
اردو حاشہ: نوٹ: (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2297
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4494
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں بہترین گواہ نہ بتلاؤں وہ جو اپنی گواہی اس کی درخواست سے پہلے ہی دے دیتا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4494]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کوئی انسان، کسی دوسرے کے حق کا گواہ ہے لیکن دوسرے کو اس بات کا علم نہیں ہے تو وہ اس کو جا کر اپنی گواہی سے آگاہ کر دے کہ میں تیرے حق میں گواہی دے سکتا ہوں اور بقول بعض اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کے پاس جو شہادت ہے، وہ اس شہادت کو کسی طالب کی طلب کے بغیر اپنے طور پر محض اجر و ثواب کی خاطر دے گویا وہ خود بھی مدعی ہے اور شاہد بھی، اس کو شہادت حسبہ کہا جاتا ہے اور اس کا تعلق خالص حقوق اللہ سے ہے، جیسے زنا یا شراب کی حد، آزادی، وصیت و وقف وغیرہ کے سلسلہ میں گواہی دینا۔