´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابتداء میں دو رکعت فرض کی گئی تھیں (سفر و حضر میں جتنی نماز فرض کی گئی وہ دو رکعت تھی) پھر سفر کی نماز کو برقرار رکھا گیا (یعنی دو رکعات) اور حضر کی نماز کو پورا کر دیا گیا (یعنی چار رکعات) (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو چار رکعت فرض کر دی گئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر برقرار رکھی گئی۔ احمد نے اتنا اضافہ کیا ہے سوائے نماز مغرب کے کیونکہ وہ دن کے وتر ہیں اور بجز صبح کی نماز کیونکہ اس نماز میں قرآت لمبی کی جاتی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 341»
تخریج: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب كيف فرضت الصلوات في الإسراء، حديث:350، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين وقصرها، حديث:685، وحديث ((ثم هاجر....)) أخرجه البخاري، حديث: 3935، وحديث ((إلا المغرب فإنها وترالنهار)) أخرجه أحمد:6 /241، 272 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضر و سفر کی نماز دو دو رکعت فرض تھی‘ بعد میں سفر کی نماز کو اپنی حالت پر رکھا گیا‘ البتہ حضر کی نماز میں دو رکعتوں کا مزید اضافہ کر دیا گیا۔
2. قرآن مجید میں نماز قصر کا جو بیان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر نماز پڑھنا جائز ہے‘ واجب نہیں۔
3.امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ سفر میں قصر واجب ہے جبکہ امام احمد اور امام شافعی; وغیرہ اسے سنت قرار دیتے ہیں اور اسے رخصت پر محمول کرتے ہیں اور یہی قول راجح ہے۔
4. سنن دارقطنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دوران سفر میں نے پوری نماز پڑھی۔
آپ کو جب اس کی خبر دی تو آپ نے میری تحسین کی۔
(سنن الدارقطني:۲ / ۱۸۸‘ وسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۱۴۲) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر متاخرین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جو کہ صحیح موقف ہے جبکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(زاد المعاد بتحقیق شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط:۱ / ۴۴۷. ۴۵۵)