جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، ۳- اس باب میں علی ۱؎، ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہو جاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 997]
وضاحت: ۱؎: علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ، احمد اور بزار نے «كفن النبي صلى الله عليه وسلم في سبعة أثواب» کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔
۲؎: اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی الله عنہا کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابوداؤد نے کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، لیلیٰ کہتی ہیں: «کنت فیمن غسل أم کلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عندو فاتہا، فکان أوّل ما أعطانا رسول الله صلى الله عليه وسلم الحقاء، ثم الدرع ثم الخمار، ثم الملحفۃ، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر، قالت: و رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس عندالباب معہ کفنہا یناولناہا ثوباً ثوباً» لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن الأحكام (59 - 60)
قال الشيخ زبير على زئي: (997) إسناده ضعيف ابن عقيل ضعيف (د 128 ) وحديث الطحاوي (شرح معاني الأثار 503/1) عن عبدالله بن الزبير رضى الله عنه وسنده حسن ) يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 997
اردو حاشہ: 1؎: علی کی روایت کی تخریج ابن ابی شیبہ، احمد اور بزار نے «كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَبْعَةِ أَثْوَابٍ» کے الفاظ کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ہیں جو سئی الحفظ ہیں ان کی حدیث سے استدلال درست نہیں جب وہ ثقات کے مخالف ہو۔
2؎: اس کی دلیل لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس کی تخریج احمد اور ابو داود نے کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں، لیلیٰ کہتی ہیں: ((کنت فیمن غسّل أم کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ عندوفاتہا، فکان أوّل ما أعطانا رسول اللہ ﷺ الحقاء، ثم الدرع ثم الخمار، ثم الملحفة، ثم أدرجت بعد فی الثوب الآخر، قالت: ورسول اللہ ﷺ جالس عندالباب معه کفنہا یناولناها ثوباً ثوباً)) لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کے راوی نوح بن حکیم ثقفی مجہول ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 997